قرآن پاک اللہ پاک کا عظیم اور بے مثال کلام ہے جو تمام انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز کا واضح اور روشن بیان ہے قرآن پاک میں جس طرح حلال و حرام کے احکام، انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف، گزشتہ امتوں کے واقعات کا بیان ہے اسی طرح قرآن پاک نے آخرت کی مناظر اور ہولناکیوں کو بھی بیان فرمایا ان میں سے ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ'' میزان '' بھی ہے میزان سے مراد وہ ترازو ہے جس پر بروز قیامت انسانوں کے نامہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اس کو میزان کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا ۔ (شعب الایمان ، الثامن من شعب الایمان ، ۔۔ الخط 1 /260 حدیث 281 )

آئیے ہم بھی میزان کے متعلق قرآن پاک کی چند آیات پڑھتے ہیں اور اپنے اعمال و افعال کی اصلاح کرتے ہیں :

(1) میزان برحق ہے: میزان پر انسانوں کے اقوال و افعال کا وزن ہونا برحق اور اسلام کے عقائد میں سے ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے جیسے کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔ (پ8 الاعراف 8)

(2) عدل و انصاف کا ترازو: اللہ پاک بروز قیامت میزان پر لوگوں کے اعمال کا وزن فرمائے گا تو کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے یا نیکیوں میں کمی کر کے ظلم نہ کرے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا اگر کسی نے ذرہ برابر بھی عمل کیا ہوگا تو اس کا بدلہ دیا جائے گا جیسے کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرما تا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

(3) اعمال کی مقبولیت کا معیار: اعمال کی مقبولیت اور اجر و ثواب کا معیار ایمان اور اخلاص پر ہے تو جو اعمال اخلاص اور ایمان سے خالی ہوں گے بروز قیامت میزان پر ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی جیسے کہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)

(4) کامیابی کا معیار: قیامت کے دن میزان پر جس کے نیک اعمال اور حسنات کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ حقیقی کامیابی (اللہ کی رضا اور جنت) پائے گا جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)

(5) رسوائی کا سبب: بروز قیامت جس کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے پڑیں گے تو وہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی اٹھائے گا اور اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا جو کہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ:8تا 11)

پیارے اسلامی بھائیو! میزان انتہائی خطرناک اور نازک مرحلہ ہے اس دن ہر ایک نفسی نفسی کے عالم میں مبتلا ہوگا کافروں کے ظاہری نیک اعمال قیامت کے دن بے وزن ہوں گے،میزان کی سختیوں اور ہولناکیوں سے نجات اپنا محاسبہ کرنے اور اعمال و افعال کی اصلاح کرنے میں ہے ،امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال، اقوال اور خطر ات و خیالات کو تولا ہو ۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب ذکر الموت وبعدہ ج 5، ص 281 مطبوعہ بیروت العلمیہ)

اللہ پاک ہمیں آخرت کی تیاری کرنے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین