بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نہایت ہی مہذب انداز میں اس دنیا میں رہنا سیکھایا اور اسکے کچھ قوانین بھی بنائیں ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اگر ہم ان معاملات میں عمل پیرا ہوتے ہیں تو اللہ پاک نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ وہ ہمیں اس کی جزا  دار بقا میں عطا فرمائے گا اور اگر ہم ان قوانین کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزارتے ہیں تو اللہ پاک نے ہمیں اس بات کا بھی پابند کیا ہے کہ وہ ہمیں یوم الوعید میں اس کی سزا دے گا اور یہ سارا کچھ بروز قیامت میں بذریعۂ میزان کے ہوگا ۔ اللہ پاک اس خاص دن ایک ایسا میزان قائم کرے گا کہ جس کا ذکر قرآن کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ بآسانی مل جاتا ہے بلا شبہ یہ وہ دن ہے کہ جس میں وعدوں کی تکمیل ہونی ہے اسی ضمن میں اللہ پاک قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا ہے ملاحظہ فرمائیں

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠(۲۸۱) ترجمۂ کنز العرفان:اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: 281)

اس آیت کی تفسیر کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح مفتی محمد قاسم صاحب اپنی مایہ ناز تصنیف '' تفسیر صراط الجنان'' میں فرماتے ہیں :

اس آیت میں قیامت کے دن سے ڈرایا جارہا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جائے گا اور اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ بلاوجہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں گی اور نہ بدیاں بڑھائی جائیں گی۔ (پارہ نمبر :3 سورۃ البقرۃ،آیت 281)

اور یہ سارا معاملہ اللہ پاک یوم الفصل میں بذریعۂ میزان کے فرمائے گا چنانچہ اسی ضمن میں حدیث مبارکہ پیش خدمت ہے: حضرت ابو درداء  رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ   نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے“۔ (ابو داؤد ،کتاب الادب، الحدیث 4799)

ہمیں اس حدیث پاک سے یہ ترغیب دلائی جارہی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اچھے اعمال کو بجا لاکر اپنے لئے جنت میں جانے کے اسباب بآسانی بنا سکتے ہیں وہ اچھے اعمال جس کی ترغیب ہمیں ہمارے نبی کریم ﷺ نے دی ہے لہٰذا ماحول جیسا بھی ہو ہمیں نیک اعمال کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے۔

لہٰذا میزان کی حقانیت پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک اور آیت ناطق ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف: 8)

اس آیت کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح مفتی محمد قاسم صاحب مد ظلہ العالیہ اپنی مایہ ناز تصنیف تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں : اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے

میزان سے متعلق دو اہم باتیں :

یہاں میزان کے بارے میں 2 اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :

(1)صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔

(2)میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔

اللہ کریم ہمیں دنیا میں رہ کر ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس کی وجہ سے آخرت میں ہمیں کامیابی اور میزان بھاری ہو۔ آمین ثم آمین