قرآن کریم  ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متوازن، عادلانہ اور منصفانہ اصولوں کے تحت استوار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔انہی اصولوں میں سے ایک نہایت بنیادی اور مرکزی اصول "میزان" کا ہے، جو قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے اور جس پر کائنات کی ساخت اور جزا اور سزا کا نظام قائم ہے۔

میزان کا لغوی مفہوم: میزان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "ترازو" یا "ناپ تول کا پیمانہ" ۔ اس کا تعلق نہ صرف مادی اشیاء کے تولنے سے ہے بلکہ وسیع معنوں میں یہ عدل، حق، انصاف ، اور تناسب کے ہر پہلو کو شامل کرتا ہے ۔

میزان کا قرآنی استعمال: قرآن کریم میں میزان کا تصور مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے ، جس میں سے چند آیات درج ذیل ہیں :

عدل کا ترازو:وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

بے اعتدالی نہ کرو: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔( الرحمن، آیت: 7تا 8)

عیش اور خسارے میں : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)

الله عزوجل ہمیں قرآن کے مفاہیم کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم