وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان
کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
قرآن کریم نے جس "میزان" کا ذکر کیا ہے، وہ عظیم
پیمانہ ہے جو روزِ محشر ہر انسان کے اعمال تولنے کے لیے سامنے لایا جائے گا۔ اس دن
نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگی، نہ کوئی نیکی ضائع ہوگی، اور نہ کوئی ظلم چھپ سکے گا۔
امام محمد
غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میزان
کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی
میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت
عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :” اپنے نفسوں کا
محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے
پہلے خود وزن کرلو“۔ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے
پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ
کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا
تَدارُک کرے۔(پ 17 سورہ الانبیاء آیت:47 کی تفسیر)
آئیے اس کے
ضمن میں ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں اللہ تبارک و تعالی نے میزان کے متعلق
ارشاد فرمایا ہے۔
(1) مراد کو پہنچنا:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8) اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور
تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ:8تا 11)
(2) قیامت
کے دن عدل کے ترازو رکھے جائیں گے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ
فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ
اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ
کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم
نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم
کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
(3) میزان
اور انجامِ انسان: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں
بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں
ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)
ان آیات سے ہمیں
یہ معلوم ہوا کہ میزان اللہ تعالیٰ کا وہ عدل ہے جو زندگی کے ہر مرحلے اور قیامت
کے دن انسانوں کے اعمال کی جانچ کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ
ہم اپنی زندگی میں بھی انصاف، اعتدال اور توازن کو اپنائیں تاکہ اُس دن ہمارا
نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو، اور ہم اللہ کی
رحمت کے مستحق قرار پائیں۔
اے اللہ! ہمارے ترازو کو بھاری فرما اور ہمیں قیامت
کے دن کامیاب لوگوں میں شامل فرما اور میزان
عمل میں ہمارا نامہ اعمال بھاری فرما۔ آمین یا رب العالمین
محمد شفاف عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان عثمان غنی، کراچی ،پاکستان)
میزان(وزن
کرنے کا آلہ) کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ترازو اور اس کے دو پلڑوں کا تصور
آجاتا ہے۔ اور کہیں نہ کہیں عدل و انصاف کا خیال بھی ابھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ شاید میزان کی ایجاد
ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہوئی تھی۔ یہ تقاضے کس حد تک پورے
ہوسکے ہیں اِس سے قطعِ نظر انسانی سوچ، محدود ایامِ زندگی اور طرزِ حیات کو سامنے
رکھ کر سوچا جائے تو یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے کہ نشیب و فراز میں گزری انسانی
زندگی کی جزا کے لیے یہ جہان کافی نہیں
ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ دنیا میں طرح طرح کی زندگیاں گزارنے والوں کے اعمال کی جزا و سزا کے لیے کوئی ایسا دن ہو جس میں حیاتِ انسانی کا حساب
چُکتا(پورا) کردیا جائے۔ اِسی دن کا نام یومُ الحساب ہے۔(اصول الدعوۃ و الإرشاد، صفحہ:
،49، عقیدۂِ آخرت کی ضرورت، مکتبۃ المدينہ)
چنانچہ اللّٰه تعالى نے ارشاد فرمایا: ترجمۂِ
کنزالایمان:"کیا جنھوں نے برائیوں کا اِرتکاب کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُنھیں
ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ اِن کی اُن کی زندگی اور موت
برابر ہوجائے کیا ہی بُرا حکم لگاتے ہیں۔"(پارہ:25، سورة الجاثیۃ : آیت
نمبر:21)
یہ ایک دن کئی
مراحل پر مشتمل ہوگا جن میں سے ایک مرحلہ میزان پر اعمال کے وزن کا بھی ہے اور اِس
وزن میں کمی بیشی و ظلم و زیادتی کا شائبہ(ادنی گمان) تک نہ ہوگا بلکہ یہ میزان
عدل و انصاف کی ایسی اعلی مثال ہوگا جس کی نظیر نا ممکن ہے۔اب اِس پر بطورِ دلیل
قرآنی بیان ملاحظہ ہو:
پہلا
قرآنی بیان: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
اوپر ذکر گئی
قرآنی آیت اِس بات پر صریح(واضح) دلیل ہے کہ قیامت کے دن میزانِ عدل قائم ہوگا
لہذا اِس پر ایمان لانا واجب اور انکار گمراہی ہے۔(تفسیرِ نور العرفان، سورة الأنبیاء،
تحت الآیۃ:47، صفحہ:519، پیر بھائی کمپنی لاہور)
اِس بحث میں پڑے بغیر کہ اُس کی صورت و کیفیت کیا
ہوگی؟ کیونکہ نہ تو ہماری عقل اِس قابل ہے کہ ہم میزان کی حقیقت جان سکیں اور نہ ہی
ہم اِس کے مکلّف(شریعت کی طرف سے پابند) ہیں۔ حقیقتِ حال کا علم الله تعالی اور اس
کے پیارے رسول ﷺ ہی کو ہے۔
دوسرا
قرآنی بیان:وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تیسرا
قرآنی بیان:َ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمۂ
کنزالایمان: اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ
نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ
گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ:8تا 11)
مذکورہ بالا
قرآنی آیات میں اِس بات کا بیان ہے کہ میزان میں نامۂِ اعمال(اعمال کے صحائف) تولے
جائیں گے اور یہی جمہور علما کا مذہب
ہے۔(تفسیر رضوی،جلد:1،صفحہ:29، سورة الأعراف: تحت الآيۃ:8، مکتبۂِ اعلی حضرت)
ساتھ میں اعمال کے وزن کے اعتبار سے مخلوق کی دو
قسمیں بھی بیان فرمائی گئیں(1) جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔(2) جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔یہاں
یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر
بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور بدی(گناہوں) کا پلّہ نیچے بیٹھے گا۔ (فتاوی رضویہ،
جلد:29، صفحہ:626، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
محمد عامر (درجہ سابعہ جامعۃالمدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور
،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے قرآن مجید کو ہدایت کی کتاب قرار دیا ہے جو نہ صرف عبادات
اور عقائد کے اصول بیان کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم
کرتا ہے۔ ان ہی رہنما اصولوں میں ایک اہم تصور "میزان" ۔ قرآن مجید میں میزان کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے جو اس کی
اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
میزان
کا مفہوم: "میزان"
عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "ترازو" یا "تولنے کا
آلہ"۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال صرف مادی اشیاء کے توازن کے لیے
نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی، معاشی اور عدالتی توازن اور انصاف کے لیے بھی کیا گیا
ہے۔ میزان کا قرآنی تصور ایک جامع اور ہمہ گیر اصول ہے ۔آیئے میزان کے متعلق چند
آیات قرآنیہ پڑھیے:
(1)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا
وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔
(الرحمٰن: 7، 8)
(2)
قیامت کے دن کا میزان: قرآن مجید میں میزان کے لفظ کو قیامت کے دن کے حساب کتاب کے لیے بھی استعمال
کیا گیا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ
الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ
مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے
قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
یہ آیت واضح
کرتی ہے کہ اعمال کا حساب انتہائی عادلانہ طریقے سے ہوگا، جہاں کوئی کمی بیشی یا
ناانصافی نہ ہوگی۔
قرآنی تصور میزان
ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی تعلیم دیتا ہے جو انصاف، توازن، امانت داری
اور باہمی احترام پر مبنی ہو۔ آج کے دور میں جب دنیا افراط و تفریط کا شکار ہے، میزان
کا یہ قرآن مجید میں بیان کردہ اصول ہمیں اعتدال اور عدل کی راہ
دکھاتا ہے۔
قرآن مجید میں میزان کا تصور نہایت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ
نہ صرف معاشرتی انصاف کا ضامن ہے بلکہ کائناتی توازن کا مظہر بھی ہے۔ میزان کے
قرآنی بیان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں توازن اور عدل قائم
رکھنا ایک ایمانی ذمہ داری ہے۔
محمد رضا عطاری (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھو کی لاہور ،پاکستان)
وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا۔ قرآن مجید میں "میزان" یعنی قیامت کے دن اعمال
کو تولنے کے ترازو کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہ "میزان" عدل و انصاف
کی علامت ہے جس سے انسان کے اعمال کی قدر و قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ آئیے ہم میزان
سے متعلق چند قرآنی آیات، ان کا ترجمہ اور مختصر تشریح پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے :
آیت نمبر 1: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے
اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا۔(المؤمنون: 102، 103)
آیت
نمبر 2: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-
ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے
دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر
کچھ ظلم نہ ہوگا۔ (الانبیاء، آیت: 47)
آیت
نمبر 5: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔
(الرحمٰن: 7تا 9)
حافظ محمد عبداللہ حسین رضوی
(درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
میزان
کیا ہے: میزان کا مطلب
ہے (ترازو)۔ اللہ تعالی اپنے بندوں اور تمام انسانوں کے اعمال نامےکو تولنے کے لیے
قیامت والے دن اِس میزان کو نصب فرمائے گا ۔ یعنی ترازو کو ۔ اس کا کچھ اجمالی
مفہوم شریعت نے بیان فرمایا ہے ۔ کہ اعمال
ناموں کا وزن اسی میزان سے کیا جائے گا
۔اور اس کا ہر پلہ اتنی وسعت رکھتا ہے۔ جیسی وسعت مشرق و مغرب کے درمیان میں ہے ۔ اور اس میزان میں جو نیکی والا پلہ ہوگا وہ
اوپر اٹھ جاے گا ۔ اور گناہوں والا پلہ نیچے
ہو جائے گا ۔اور اس سلسلے میں آج میزان کا قرآنی بیان پیش کیا جا رہا ہے :چند آیات ملاحظہ کیجیے :
(1) اللہ تبارک
و تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
(2) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: َ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزالایمان:
اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی
جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:
9)
ان دونوں
آیات مبارکہ کے اندر اللہ تبارک و تعالی نے قیامت کے دن کے احوال کو بیان فرمایا
ہے ۔
(3) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے : فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ
کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
(4) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور
تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اللہ تبارک و
تعالی قیامت والے دن اپنے بندوں کے اعمال نامے کو میزان میں یعنی ترازو میں تو لے
گا ۔ اور اس دوران کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی لغزش نہیں کی جائے گی اور قیامت والے دن جن انسانوں کے نیکیوں والے پلڑے
بھاری ہوں گے تو وہ انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں
گے ۔ تو اُن کا ٹھکانہ جنت بن جائے گی اور
قیامت والے دن جن انسانوں کے برائیوں پلڑے بھاری ہونگے تو وہ انسان دنیا اور آخرت میں
ناکام ہو جائیں گے ۔ تو اُن کا ٹھکانہ جہنم بن جائے گا۔
اللہ تبارک و
تعالی سے دعا ہے اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو قیامت والے دن حضور نبی کریم ﷺ کے
صدقے اور وسیلہ سے کامیاب فرمائے اور
ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو بھاری فرمائے اور برائیوں والے پلڑے کو کم فرمائے۔ آمین
بجاہ النبی الکریم الامین
محمد شہباز عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور ،پاکستان)
عقیدہ میزان
(اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت
ہے۔اس پر ایمان لانا واجب ہے۔(المعتقد مع المعتمد، ص333)جس آلے کے ساتھ چیزوں کا
وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔( لسان العرب، جز:2،ج2)
میزان کے حق
ہونے میں قرآن پاک کی کئی آیت کریمہ اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں
چنانچہ ارشاد ہوا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری
ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:8)
اس آیت کریمہ
میں میزان کے حق ہونے اور اعمال کا وزن ہونے کے حوالے سے بیان فرمایا گیا ہے مفسرین
نے اس آیت کریمہ پر یوں کلام فرمایا:
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن
کرنا‘‘ مراد ہے ۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں
میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں : (1)صحیح اور متواتر احادیث
سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک
ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان
کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا
ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے
مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت
اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔(صراط الجنان،ج3،ص269/270)
عدل
کا ترازو: اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے یوں ارشاد فرمایا:
وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا
حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیا جائے گا تا کہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پر اس
کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگا
اور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔ (صراط الجنان،ج6،ص329)
اعمال
کا بدلہ: اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ
بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۱۷)
ترجمۂ کنز العرفان:آج ہر جان کو اس کے اعمال کا
بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (پ24، المومن:17)
یعنی قیامت کے
دن ہر نیک اور برے انسان کو اس کی دنیا میں کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور نیک شخص کے ثواب میں
کمی کر کے یا برے شخص کے عذاب میں زیادتی کر کے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔بے شک
اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔(صراط الجنان،ج8، ص536)
الغرض اتنا تو
معلوم اور نصوص سے ثابت ہے کہ اعمال کا وزن، میزان سے کیا جائے گا لیکن وہ میزان
کسی نوعیت کی ہوگی اور اس کے دونوں پلے کس کیفیت میں ہوں گے اور ان سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ
ہو گا ، یہ وہ باتیں ہیں جن کا ادراک واسطہ کرنا اور اس کی حقیقت کا دریافت کر لینا
ہماری رسائی سے باہر ہے۔ (العقائد الحسنہ)
اللہ تعالی ہمیں
فکر آخرت نصیب فرمائے اور ہمیں میزان عمل کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
اللّہ تعالی
نے بنی نوع انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ
الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور
میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی
لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔ (الذّٰریٰت: 56)
اور اس نے
زندگی اور موت کو بھی اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھے کہ اس کے بندوں میں سے کون زیادہ
اچھے اعمال کرتا ہے اور کون اس کی نافرمانی کرتا ہے ؟ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ
اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان: وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں
کس کا کام زیادہ اچھا ہے اور وہی عزّت والا بخشش والا ہے۔(پارہ :29 سورۃ الملک ،آیت:2)
اب بندوں کے
اعمال کا وزن کرنے کے لیے بروز قیامت
جو آلہ استعمال ہو گا اسے مِیزَان کہتے ہیں ۔
جی ہاں ، آپ
نے صحیح پڑھا کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ۔ اس کا حق ہونا قرآن کریم ، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک احادیث اور اجماع سے ثابت ہے۔
قرآن کریم سے میزان کا ثبوت: قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ
ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8) اس آیت میں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں
ارشاد فرما دیا کہ حساب و کتاب حق ہے اور ضرور ہوگا ۔
میزان کیسا ہوگا : روز محشر جو میزان قائم ہوگا اس کے دنیاوی میزان کی طرح
دو پلڑے ہونگے ایک نیکیوں والا ہوگا اور دوسرا گناہوں والا ہوگا ۔ جس کا نیکیوں
والا پلڑا بھاری ہوگا وہ عیش و رضامندی والی زندگی میں ہوگا اور جس کا نیکیوں والا
پلڑا گناہوں والے پلڑے سے ہلکا ہوگا اس کا ٹھکانہ آگ ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
مگر
یہ بات یاد رہے اعمال کے حساب کتاب کے بعد بندے کی نیکیاں اگرچہ کم ہوں مگر اللّہ
تعالی چاہے تو اسے بخش سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس نے شرک نہ کیا ہو ۔ جیسا کہ
اس نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ
اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں
بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما
دیتا ہ ۔ (پ5، النساء: 48)
اعمال کے وزن کیسے تُلیں گے :
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کی نشانی: بروز قیامت حساب سے پہلے ہر شخص کو اس کے نامہ اعمال
کا دفتر دیا جائے گا جس میں اس شخص کے پیدائش سے موت تک کہ اعمال لکھے ہوئے ہونگے۔
تو جس کو وہ نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں کامیاب ہوجائے
گا اور جسے الٹے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں ناکام ہوجائے گا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔اور وہ اپنے گھر
والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا اور رہا
وہ جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت
مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ (پ30، الانشقاق:7 تا 12)
اللّہ تعالی
ہمیں بلاحساب و کتاب جنت میں داخلہ عطا فرمائے ۔آمین
قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کو ہدایت دینا
ہے۔ اسی مقصد کے تحت قرآن نے "میزان" یعنی ترازو یا معیارِ عدل کا تصور
دیا ہے۔ "میزان" کا قرآنی بیان نہ صرف مادی معاملات میں انصاف کے قیام کی
تاکید کرتا ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں میں
توازن اور انصاف کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
میزان
کا لغوی و اصطلاحی مفہوم: عربی
زبان میں "میزان" کا مطلب ترازو یا پیمانہ ہے جس کے ذریعے چیزوں کا وزن
اور توازن معلوم کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر میزان کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور
انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
میزان
اور عدل کا تعلق:میزان کا تعلق
براہِ راست عدل سے ہے۔ قرآن کا پیغام ہے کہ دنیا میں ہر انسان، ہر معاشرہ اور ہر
ادارہ اپنے معاملات میں عدل و انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھے۔ میزان کا مقصد ہی یہ ہے
کہ نہ کسی کا حق مارا جائے، نہ کسی پر ظلم ہو اور نہ ہی کسی کو اس کے حق سے کم دیا
جائے۔
انسانی
زندگی میں میزان کی اہمیت: انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، میزان ہر شعبے میں توازن اور
اعتدال کا مطالبہ کرتا ہے۔ عبادات میں توازن، رزق کے معاملے میں اعتدال، معاشرتی
تعلقات میں انصاف، کاروبار میں ایمانداری، غصہ، خوشی، محبت، نفرت، ہر جذباتی رویے
میں توازن ہی میزان کی عملی صورت ہے۔ قرآن
فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ
بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ
الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) ترجمہ
کنزالایمان: بےشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور
رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (پارہ
14، النمل: 90)
یہی میزان کی روح ہے کہ ہر معاملے میں
اعتدال، انصاف اور توازن قائم رکھا جائے۔
میزان
کا تعلق آخرت سے:قرآن نے یہ حقیقت
بھی بیان کی ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن میزان پر کیا جائے گا۔ اس میزان پر
صرف اعمال کا ظاہری وزن نہیں بلکہ ان کا اخلاص، نیت اور تاثیر بھی تولا جائے گا۔ ارشاد
ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ
الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ
مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے
قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
میزان کے حق
ہونے پر قرآن مجید میں کثیر آیات وارد ہوئی ہیں اور کثیر احادیث صحیحہ
سے ثابت ہے کہ بروز قیامت میزان قائم کیا جائےگا۔ جس پر لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے اور کثیر اقوالِ علما سے ثابت ہے کہ میزان حق ہے اس پر ایمان لانا ضروری
ہے کیونکہ یہ نص قرآنی سے ثابت ہے اور اسکی کیفیت دنیا کے ترازو سے مختلف ہے دنیا
کے ترازو کا بھاری پلڑا نیچے آتا ہے اور
اس میزان کا پلڑا اوپر جائیگا اور ہلکا پلڑا نیچے آئے گا۔
قرآنی آیات سے
میزان کے ثبوت کے متعلق چند آیات پڑھیئے: اللہ تبارک وتعالی قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7، 8)
اللہ تعالی نے
قرآن کریم کو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے جس میں
زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اصول و ضوابط
موجود ہیں جن میں سے ایک اہم اصول میزان بھی ہے، قرآن پاک میں میزان کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان
میں چند آیات کا ترجمہ اور مختصر تفسیر ملاحظہ فرمائیں:
آیت
نمبر 1: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ
کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو ۔(ا لرحمن، آیت: 7، 8)
تفسیر صراط الجنان: ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق
کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان
سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء
کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات
اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس
حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے
اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل
قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن،
تحت الآیۃ:7، 8 ج4، صحیح 209۔ مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ:7، 8، ص 1192 ،ملتقطاً)
آیت
نمبر 2: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
تفسیر
صراط الجنان: اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا
جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال
کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
آیت
نمبر 3 : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
تفسیر
صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے
ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے
کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین،
الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)
ان آیات مبارکہ
سے میزان کی اہمیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں آخرت کی تیاری کی
توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
حافظ سید محمد منیب عالم ( درجہ سابعہ جامعۃ المدينہ اپر مال روڈ لاھور ،پاکستان)
دنیا دار فانی ہے پر ہر شخص کا قیام دنیا میں
عارضی ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے بندہ دنیا میں جو اعمال کرتا ہے بروز محشر اس کا
وزن اور حساب ہو گا ۔
وزن
اور میزان کا معنى: کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن
کیا جائے اسے میزان کہتے ہے۔میزان عمل کا قرآن پاک میں کئی مقامات پر ذكر آیا ہے، الله پاک ارشاد
فرماتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا
نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے
جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا، کفار
کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی
وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
قیامت کے دن میزان
قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان
زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9)
اور حساب و
کتاب کا معاملہ نہایت سخت ہوگا اور عدل و انصاف کے ساتھ سب کے اعمال کا وزن ہو گا ، اس کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں کیا گیا۔اللہ پاک کا ارشاد ہے :وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے، قیامت کے ہولناک
مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ
ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے
گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا
جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے
گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے
کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔(تفسیر
صراط الجنان پارہ 17 سورہ انبیاء آیت نمبر 47)
قرآنی
آیات سے یہ ثابت ہے کہ میزان پر ایمان
لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت
اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری
عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
قبر و حشر کی آزمائشوں سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
محمد عاقب رضا (درجہ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان بغداد کورنگی کراچی ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات
امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور
جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔( تاج العروس، باب
النون، فصل الواو، 9 / 361 )
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :
وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:اور اس دن تول
ضرور ہونی ہے۔(پ8،الاعراف:8)
قیامت کے دن
اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی
ہیں : (1) پہلی صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے
کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا
جائے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال
حسین جسموں کی صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے
جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ (3) تیسری
صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف،
تحت الآیۃ: 8، 5 / 202، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
عدل کا بھاری ہونا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے ۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
پر عدل: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن:7، 8)
ایک قول یہ ہے
کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں
) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات
ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت
کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین
پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین
دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ
فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی
حق تَلفی نہ ہو۔ ( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، 4 / 209، مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، ص1192، ملتقطاً)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین
رکھیں :
(1)صحیح
اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس
میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی
یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن
معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور
نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان
کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
حافظ محمد حسین عطاری (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ بغداد کورنگی ،پاکستان)
انسان کی یہ
چند سالہ دنیاوی زندگی محض آزمائش کا میدان ہے، اصل فیصلہ اُس دن ہوگا جس دن ہر
چھوٹے بڑے عمل کو تولا جائے گا۔ قیامت کا دن انصاف کا دن ہوگا، اور اُس دن کا سب
سے عظیم منظر "میزان" کا نصب ہونا ہے ۔ وہ الٰہی ترازو جو غلطی نہیں کرتا۔ زبانیں خاموش ہوں گی، ہاتھ اور پاؤں گواہی
دیں گے اور اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا
ہلکا ، وہ حسرتوں میں گم ہوگا۔ یہ میزان ربِّ
تعالی کے عدل کی نشانی ہے، میزان
کے متعلق قرآن مجید میں کئی آیت مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔(پ8،الاعراف:9)
اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان
پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی : وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس
آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں
کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
(1)فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) ترجمہ کنزالعرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے۔ (القارعۃ: 6)
قیامت کا حال
ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت کے دن
مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں، کہ قیامت
کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس
کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں
گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (صراط الجنان)
(2) جبکہ کفار
کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ
کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
(3)قیامت کے
دن میزان قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے
بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو
وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں
پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)
Dawateislami