محمد شہباز عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور ،پاکستان)
عقیدہ میزان
(اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت
ہے۔اس پر ایمان لانا واجب ہے۔(المعتقد مع المعتمد، ص333)جس آلے کے ساتھ چیزوں کا
وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔( لسان العرب، جز:2،ج2)
میزان کے حق
ہونے میں قرآن پاک کی کئی آیت کریمہ اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں
چنانچہ ارشاد ہوا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری
ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:8)
اس آیت کریمہ
میں میزان کے حق ہونے اور اعمال کا وزن ہونے کے حوالے سے بیان فرمایا گیا ہے مفسرین
نے اس آیت کریمہ پر یوں کلام فرمایا:
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن
کرنا‘‘ مراد ہے ۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں
میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں : (1)صحیح اور متواتر احادیث
سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک
ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان
کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا
ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے
مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت
اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔(صراط الجنان،ج3،ص269/270)
عدل
کا ترازو: اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے یوں ارشاد فرمایا:
وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا
حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیا جائے گا تا کہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پر اس
کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگا
اور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔ (صراط الجنان،ج6،ص329)
اعمال
کا بدلہ: اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ
بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۱۷)
ترجمۂ کنز العرفان:آج ہر جان کو اس کے اعمال کا
بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (پ24، المومن:17)
یعنی قیامت کے
دن ہر نیک اور برے انسان کو اس کی دنیا میں کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور نیک شخص کے ثواب میں
کمی کر کے یا برے شخص کے عذاب میں زیادتی کر کے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔بے شک
اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔(صراط الجنان،ج8، ص536)
الغرض اتنا تو
معلوم اور نصوص سے ثابت ہے کہ اعمال کا وزن، میزان سے کیا جائے گا لیکن وہ میزان
کسی نوعیت کی ہوگی اور اس کے دونوں پلے کس کیفیت میں ہوں گے اور ان سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ
ہو گا ، یہ وہ باتیں ہیں جن کا ادراک واسطہ کرنا اور اس کی حقیقت کا دریافت کر لینا
ہماری رسائی سے باہر ہے۔ (العقائد الحسنہ)
اللہ تعالی ہمیں
فکر آخرت نصیب فرمائے اور ہمیں میزان عمل کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
Dawateislami