اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید کو ہدایت کی کتاب قرار دیا ہے جو نہ صرف عبادات اور عقائد کے اصول بیان کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان ہی رہنما اصولوں میں ایک اہم تصور "میزان" ۔ قرآن مجید میں میزان کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے جو اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

میزان کا مفہوم: "میزان" عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "ترازو" یا "تولنے کا آلہ"۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال صرف مادی اشیاء کے توازن کے لیے نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی، معاشی اور عدالتی توازن اور انصاف کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ میزان کا قرآنی تصور ایک جامع اور ہمہ گیر اصول ہے ۔آیئے میزان کے متعلق چند آیات قرآنیہ پڑھیے:

(1) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7، 8)

(2) قیامت کے دن کا میزان: قرآن مجید میں میزان کے لفظ کو قیامت کے دن کے حساب کتاب کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اعمال کا حساب انتہائی عادلانہ طریقے سے ہوگا، جہاں کوئی کمی بیشی یا ناانصافی نہ ہوگی۔

قرآنی تصور میزان ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی تعلیم دیتا ہے جو انصاف، توازن، امانت داری اور باہمی احترام پر مبنی ہو۔ آج کے دور میں جب دنیا افراط و تفریط کا شکار ہے، میزان کا یہ قرآن مجید میں بیان کردہ اصول ہمیں اعتدال اور عدل کی راہ دکھاتا ہے۔

قرآن مجید میں میزان کا تصور نہایت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی انصاف کا ضامن ہے بلکہ کائناتی توازن کا مظہر بھی ہے۔ میزان کے قرآنی بیان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں توازن اور عدل قائم رکھنا ایک ایمانی ذمہ داری ہے۔