اللّہ تعالی
نے بنی نوع انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ
الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور
میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی
لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔ (الذّٰریٰت: 56)
اور اس نے
زندگی اور موت کو بھی اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھے کہ اس کے بندوں میں سے کون زیادہ
اچھے اعمال کرتا ہے اور کون اس کی نافرمانی کرتا ہے ؟ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ
اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان: وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں
کس کا کام زیادہ اچھا ہے اور وہی عزّت والا بخشش والا ہے۔(پارہ :29 سورۃ الملک ،آیت:2)
اب بندوں کے
اعمال کا وزن کرنے کے لیے بروز قیامت
جو آلہ استعمال ہو گا اسے مِیزَان کہتے ہیں ۔
جی ہاں ، آپ
نے صحیح پڑھا کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ۔ اس کا حق ہونا قرآن کریم ، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک احادیث اور اجماع سے ثابت ہے۔
قرآن کریم سے میزان کا ثبوت: قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ
ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8) اس آیت میں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں
ارشاد فرما دیا کہ حساب و کتاب حق ہے اور ضرور ہوگا ۔
میزان کیسا ہوگا : روز محشر جو میزان قائم ہوگا اس کے دنیاوی میزان کی طرح
دو پلڑے ہونگے ایک نیکیوں والا ہوگا اور دوسرا گناہوں والا ہوگا ۔ جس کا نیکیوں
والا پلڑا بھاری ہوگا وہ عیش و رضامندی والی زندگی میں ہوگا اور جس کا نیکیوں والا
پلڑا گناہوں والے پلڑے سے ہلکا ہوگا اس کا ٹھکانہ آگ ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
مگر
یہ بات یاد رہے اعمال کے حساب کتاب کے بعد بندے کی نیکیاں اگرچہ کم ہوں مگر اللّہ
تعالی چاہے تو اسے بخش سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس نے شرک نہ کیا ہو ۔ جیسا کہ
اس نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ
اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں
بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما
دیتا ہ ۔ (پ5، النساء: 48)
اعمال کے وزن کیسے تُلیں گے :
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کی نشانی: بروز قیامت حساب سے پہلے ہر شخص کو اس کے نامہ اعمال
کا دفتر دیا جائے گا جس میں اس شخص کے پیدائش سے موت تک کہ اعمال لکھے ہوئے ہونگے۔
تو جس کو وہ نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں کامیاب ہوجائے
گا اور جسے الٹے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں ناکام ہوجائے گا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔اور وہ اپنے گھر
والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا اور رہا
وہ جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت
مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ (پ30، الانشقاق:7 تا 12)
اللّہ تعالی
ہمیں بلاحساب و کتاب جنت میں داخلہ عطا فرمائے ۔آمین
Dawateislami