قرآن مجید  کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کو ہدایت دینا ہے۔ اسی مقصد کے تحت قرآن نے "میزان" یعنی ترازو یا معیارِ عدل کا تصور دیا ہے۔ "میزان" کا قرآنی بیان نہ صرف مادی معاملات میں انصاف کے قیام کی تاکید کرتا ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں میں توازن اور انصاف کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

میزان کا لغوی و اصطلاحی مفہوم: عربی زبان میں "میزان" کا مطلب ترازو یا پیمانہ ہے جس کے ذریعے چیزوں کا وزن اور توازن معلوم کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر میزان کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

میزان اور عدل کا تعلق:میزان کا تعلق براہِ راست عدل سے ہے۔ قرآن کا پیغام ہے کہ دنیا میں ہر انسان، ہر معاشرہ اور ہر ادارہ اپنے معاملات میں عدل و انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھے۔ میزان کا مقصد ہی یہ ہے کہ نہ کسی کا حق مارا جائے، نہ کسی پر ظلم ہو اور نہ ہی کسی کو اس کے حق سے کم دیا جائے۔

انسانی زندگی میں میزان کی اہمیت: انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، میزان ہر شعبے میں توازن اور اعتدال کا مطالبہ کرتا ہے۔ عبادات میں توازن، رزق کے معاملے میں اعتدال، معاشرتی تعلقات میں انصاف، کاروبار میں ایمانداری، غصہ، خوشی، محبت، نفرت، ہر جذباتی رویے میں توازن ہی میزان کی عملی صورت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) ترجمہ کنزالایمان: بےشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (پارہ 14، النمل: 90)

یہی میزان کی روح ہے کہ ہر معاملے میں اعتدال، انصاف اور توازن قائم رکھا جائے۔

میزان کا تعلق آخرت سے:قرآن نے یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن میزان پر کیا جائے گا۔ اس میزان پر صرف اعمال کا ظاہری وزن نہیں بلکہ ان کا اخلاص، نیت اور تاثیر بھی تولا جائے گا۔ ارشاد ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

میزان اور اخلاقی تربیت: میزان کا قرآنی تصور انسان کی اخلاقی تربیت کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایک شخص جب یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ہر قول و فعل کا وزن میزان پر ہو گا، تو وہ بددیانتی، ظلم، جھوٹ اور ناانصافی سے بچتا ہے۔ یوں میزان کا تصور انسان کو تقویٰ، پرہیزگاری اور سچائی کی طرف راغب کرتا ہے۔