وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا۔   قرآن مجید میں "میزان" یعنی قیامت کے دن اعمال کو تولنے کے ترازو کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہ "میزان" عدل و انصاف کی علامت ہے جس سے انسان کے اعمال کی قدر و قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ آئیے ہم میزان سے متعلق چند قرآنی آیات، ان کا ترجمہ اور مختصر تشریح پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے :

آیت نمبر 1: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا۔(المؤمنون: 102، 103)

آیت نمبر 2: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ (الانبیاء، آیت: 47)

آیت نمبر 5: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

حافظ محمد عبداللہ حسین رضوی (درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)

میزان کیا ہے: میزان کا مطلب ہے (ترازو)۔ اللہ تعالی اپنے بندوں اور تمام انسانوں کے اعمال نامےکو تولنے کے لیے قیامت والے دن اِس میزان کو نصب فرمائے گا ۔ یعنی ترازو کو ۔ اس کا کچھ اجمالی مفہوم شریعت نے بیان فرمایا ہے ۔ کہ اعمال ناموں کا وزن اسی میزان سے کیا جائے گا ۔اور اس کا ہر پلہ اتنی وسعت رکھتا ہے۔ جیسی وسعت مشرق و مغرب کے درمیان میں ہے ۔ اور اس میزان میں جو نیکی والا پلہ ہوگا وہ اوپر اٹھ جاے گا ۔ اور گناہوں والا پلہ نیچے ہو جائے گا ۔اور اس سلسلے میں آج میزان کا قرآنی بیان پیش کیا جا رہا ہے :چند آیات ملاحظہ کیجیے :

(1) اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

(2) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: َ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 9)

ان دونوں آیات مبارکہ کے اندر اللہ تبارک و تعالی نے قیامت کے دن کے احوال کو بیان فرمایا ہے ۔

(3) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے : فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)

(4) اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)

اللہ تبارک و تعالی قیامت والے دن اپنے بندوں کے اعمال نامے کو میزان میں یعنی ترازو میں تو لے گا ۔ اور اس دوران کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی لغزش نہیں کی جائے گی اور قیامت والے دن جن انسانوں کے نیکیوں والے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ تو اُن کا ٹھکانہ جنت بن جائے گی اور قیامت والے دن جن انسانوں کے برائیوں پلڑے بھاری ہونگے تو وہ انسان دنیا اور آخرت میں ناکام ہو جائیں گے ۔ تو اُن کا ٹھکانہ جہنم بن جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو قیامت والے دن حضور نبی کریم ﷺ کے صدقے اور وسیلہ سے کامیاب فرمائے اور ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو بھاری فرمائے اور برائیوں والے پلڑے کو کم فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین