وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

قرآن کریم نے جس "میزان" کا ذکر کیا ہے، وہ عظیم پیمانہ ہے جو روزِ محشر ہر انسان کے اعمال تولنے کے لیے سامنے لایا جائے گا۔ اس دن نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگی، نہ کوئی نیکی ضائع ہوگی، اور نہ کوئی ظلم چھپ سکے گا۔

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :” اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو“۔ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے۔(پ 17 سورہ الانبیاء آیت:47 کی تفسیر)

آئیے اس کے ضمن میں ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں اللہ تبارک و تعالی نے میزان کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔

(1) مراد کو پہنچنا:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8) اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ:8تا 11)

(2) قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھے جائیں گے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

(3) میزان اور انجامِ انسان: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)

ان آیات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ میزان اللہ تعالیٰ کا وہ عدل ہے جو زندگی کے ہر مرحلے اور قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کی جانچ کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بھی انصاف، اعتدال اور توازن کو اپنائیں تاکہ اُس دن ہمارا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو، اور ہم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔

اے اللہ! ہمارے ترازو کو بھاری فرما اور ہمیں قیامت کے دن کامیاب لوگوں میں شامل فرما اور میزان عمل میں ہمارا نامہ اعمال بھاری فرما۔ آمین یا رب العالمین