محمد عاقب رضا (درجہ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان بغداد کورنگی کراچی ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات
امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور
جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔( تاج العروس، باب
النون، فصل الواو، 9 / 361 )
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :
وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:اور اس دن تول
ضرور ہونی ہے۔(پ8،الاعراف:8)
قیامت کے دن
اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی
ہیں : (1) پہلی صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے
کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا
جائے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال
حسین جسموں کی صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے
جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ (3) تیسری
صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف،
تحت الآیۃ: 8، 5 / 202، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
عدل کا بھاری ہونا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے ۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
پر عدل: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن:7، 8)
ایک قول یہ ہے
کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں
) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات
ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت
کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین
پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین
دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ
فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی
حق تَلفی نہ ہو۔ ( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، 4 / 209، مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، ص1192، ملتقطاً)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین
رکھیں :
(1)صحیح
اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس
میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی
یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن
معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور
نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان
کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
Dawateislami