اللہ تعالی نے
قرآن کریم کو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے جس میں
زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اصول و ضوابط
موجود ہیں جن میں سے ایک اہم اصول میزان بھی ہے، قرآن پاک میں میزان کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان
میں چند آیات کا ترجمہ اور مختصر تفسیر ملاحظہ فرمائیں:
آیت
نمبر 1: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ
کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو ۔(ا لرحمن، آیت: 7، 8)
تفسیر صراط الجنان: ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق
کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان
سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء
کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات
اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس
حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے
اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل
قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن،
تحت الآیۃ:7، 8 ج4، صحیح 209۔ مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ:7، 8، ص 1192 ،ملتقطاً)
آیت
نمبر 2: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
تفسیر
صراط الجنان: اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا
جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال
کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
آیت
نمبر 3 : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
تفسیر
صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے
ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے
کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین،
الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)
ان آیات مبارکہ
سے میزان کی اہمیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں آخرت کی تیاری کی
توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
Dawateislami