حافظ سید محمد منیب عالم ( درجہ سابعہ جامعۃ المدينہ اپر مال روڈ لاھور ،پاکستان)
دنیا دار فانی ہے پر ہر شخص کا قیام دنیا میں
عارضی ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے بندہ دنیا میں جو اعمال کرتا ہے بروز محشر اس کا
وزن اور حساب ہو گا ۔
وزن
اور میزان کا معنى: کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن
کیا جائے اسے میزان کہتے ہے۔میزان عمل کا قرآن پاک میں کئی مقامات پر ذكر آیا ہے، الله پاک ارشاد
فرماتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا
نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے
جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا، کفار
کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی
وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
قیامت کے دن میزان
قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان
زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9)
اور حساب و
کتاب کا معاملہ نہایت سخت ہوگا اور عدل و انصاف کے ساتھ سب کے اعمال کا وزن ہو گا ، اس کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں کیا گیا۔اللہ پاک کا ارشاد ہے :وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے، قیامت کے ہولناک
مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ
ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے
گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا
جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے
گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے
کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔(تفسیر
صراط الجنان پارہ 17 سورہ انبیاء آیت نمبر 47)
قرآنی
آیات سے یہ ثابت ہے کہ میزان پر ایمان
لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت
اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری
عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
قبر و حشر کی آزمائشوں سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
Dawateislami