میزان(وزن کرنے کا آلہ) کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ترازو اور اس کے دو پلڑوں کا تصور آجاتا ہے۔ اور کہیں نہ کہیں عدل و انصاف کا خیال بھی ابھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ شاید میزان کی ایجاد ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہوئی تھی۔ یہ تقاضے کس حد تک پورے ہوسکے ہیں اِس سے قطعِ نظر انسانی سوچ، محدود ایامِ زندگی اور طرزِ حیات کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے کہ نشیب و فراز میں گزری انسانی زندگی کی جزا کے لیے یہ جہان کافی نہیں ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ دنیا میں طرح طرح کی زندگیاں گزارنے والوں کے اعمال کی جزا و سزا کے لیے کوئی ایسا دن ہو جس میں حیاتِ انسانی کا حساب چُکتا(پورا) کردیا جائے۔ اِسی دن کا نام یومُ الحساب ہے۔(اصول الدعوۃ و الإرشاد، صفحہ: ،49، عقیدۂِ آخرت کی ضرورت، مکتبۃ المدينہ)

چنانچہ اللّٰه تعالى نے ارشاد فرمایا: ترجمۂِ کنزالایمان:"کیا جنھوں نے برائیوں کا اِرتکاب کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُنھیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ اِن کی اُن کی زندگی اور موت برابر ہوجائے کیا ہی بُرا حکم لگاتے ہیں۔"(پارہ:25، سورة الجاثیۃ : آیت نمبر:21)

یہ ایک دن کئی مراحل پر مشتمل ہوگا جن میں سے ایک مرحلہ میزان پر اعمال کے وزن کا بھی ہے اور اِس وزن میں کمی بیشی و ظلم و زیادتی کا شائبہ(ادنی گمان) تک نہ ہوگا بلکہ یہ میزان عدل و انصاف کی ایسی اعلی مثال ہوگا جس کی نظیر نا ممکن ہے۔اب اِس پر بطورِ دلیل قرآنی بیان ملاحظہ ہو:

پہلا قرآنی بیان: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اوپر ذکر گئی قرآنی آیت اِس بات پر صریح(واضح) دلیل ہے کہ قیامت کے دن میزانِ عدل قائم ہوگا لہذا اِس پر ایمان لانا واجب اور انکار گمراہی ہے۔(تفسیرِ نور العرفان، سورة الأنبیاء، تحت الآیۃ:47، صفحہ:519، پیر بھائی کمپنی لاہور)

اِس بحث میں پڑے بغیر کہ اُس کی صورت و کیفیت کیا ہوگی؟ کیونکہ نہ تو ہماری عقل اِس قابل ہے کہ ہم میزان کی حقیقت جان سکیں اور نہ ہی ہم اِس کے مکلّف(شریعت کی طرف سے پابند) ہیں۔ حقیقتِ حال کا علم الله تعالی اور اس کے پیارے رسول ﷺ ہی کو ہے۔

دوسرا قرآنی بیان:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

تیسرا قرآنی بیان:َ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمۂ کنزالایمان: اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ:8تا 11)

مذکورہ بالا قرآنی آیات میں اِس بات کا بیان ہے کہ میزان میں نامۂِ اعمال(اعمال کے صحائف) تولے جائیں گے اور یہی جمہور علما کا مذہب ہے۔(تفسیر رضوی،جلد:1،صفحہ:29، سورة الأعراف: تحت الآيۃ:8، مکتبۂِ اعلی حضرت)

ساتھ میں اعمال کے وزن کے اعتبار سے مخلوق کی دو قسمیں بھی بیان فرمائی گئیں(1) جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔(2) جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور بدی(گناہوں) کا پلّہ نیچے بیٹھے گا۔ (فتاوی رضویہ، جلد:29، صفحہ:626، رضا فاؤنڈیشن لاہور)