غلام محمد ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ عثمانِ غنی
گلستانِ جوہر کراچی ، پاکستان)
یوں تو ہر شے
کا اپنا مقام ہے لیکن معاملات کو درست رکھنے کے لیے ان کی جانچ اور ناپ تول کرنا
ضروری ہوتا ہے ورنہ معاملات بے ترتیب ہو سکتے ہیں۔ اس کی بہت ساری صورتیں ہوتی ہیں
کبھی لکھ کر، کبھی ناپ تول کر کے اور کبھی حلقے کی صورت میں بیٹھ کر معاملات ترتیب
دیئے جاتے ہیں۔ ناپ تول کی بات چلی ہے تو یہ سمجھ لیں کہ دنیا میں عدل و انصاف کے
لیے اشیاء کی خرید و فروخت ، وقت اور قیمت کے مطابق ناپ تول
کی جاتی ہے، اور یہ معاملات کو درست رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اسی طرح جب اللہ
تعالی نے انسان کی تخلیق فرمائی تو اسے اچھائی اور برائی کرنے کی صلاحیت بھی دی
اور اس کے مرنے کے بعد آخرت میں اس کے ٹھکانے کے لیے جنت اور دوزخ بنائی۔ پھر کون
جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں اس کے لیے اللہ تعالی نے عدل و انصاف کرتے ہوئے
میزان کی صورت رکھی تاکہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا وزن دکھایا جائے ۔ قرآن پاک میں میزان کا کئی مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ ذکر
کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان
فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی
قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان
اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے
جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے
گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف
کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)
ایک اور مقام
پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
امام محمد
غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے
دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال
اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِی اللہ عَنْہ نے فرمایا
: ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے
دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے
کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی
کی ہے اس کا تدارک کرے اور لوگوں کے حقوق
ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی
کی بے عزتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے
ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں
جائے گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت، ص 281)
Dawateislami