محمد
اشتیاق مدنی ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاھور ، پاکستان)
میزان یعنی
اعمال تولنے کی ترازو حق ہے،اس کا ثبوت قرآنی آیات اور احادیث سے ہے،اس پر بھی ایمان
لانا ضروری ہے۔اس کے دو پلڑے ڈنڈی،زبان سب کچھ ہے،دو پلڑوں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا
مشرق و مغرب میں فاصلہ ہے۔اعمال نامے یا خود اعمال اس میں وزن کیے جائیں گے۔حضرات
انبیاءکرام اور بعض اولیاء کے اعمال کا وزن نہ کیا جائے گا،وہاں وزنی پلڑا اونچا ہوگا ہلکا پلڑا نیچے کیونکہ
نور اوپر کو اٹھتا ہے نیچے نہیں جھکتا،وہاں وزن باٹ سے نہ ہوگا بلکہ نیکیوں کا گناہوں
سے ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، ج7)
تفسیر صراط
الجنان، میں "میزان" کے تصور کو قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں تفصیل
سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر سورۃ الأنبیاء کی آیت 47 اور سورۃ الأعراف کی آیت
8 میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
انصاف
کی ترازوئیں: اس آیت میں
"موازین" (ترازوئیں) کا ذکر جمع کے صیغے سے کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے
کہ کئی ترازوئیں ہوں گی یا پھر ایک ہی ترازو کی کئی ڈنڈیاں اور پلڑے ہوں گے۔ یہ
ترازوئیں "انصاف" کی ہوں گی، یعنی ان میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی یا ظلم
نہیں ہوگا، نہ کسی کی نیکی کو کم کیا جائے گا اور نہ برائی میں اضافہ کیا جائے گا۔
ذرہ
برابر بھی عمل کا وزن: آیت کا یہ
حصہ کہ "اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو تو ہم اسے لے آئیں
گے" اس بات پر زور دیتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی نیک یا بد عمل، کتنا ہی چھوٹا
کیوں نہ ہو، ضائع نہیں جائے گا بلکہ اسے بھی وزن کیا جائے گا۔ اس سے اعمال کی اہمیت
اور اللہ کی عدل و انصاف کی کامل انتہا ظاہر ہوتی ہے۔
اعمال
کا وزن کیسے ہوگا: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ
اللہ علیہ کے نزدیک خود اعمال کو جسمانی صورت دی جائے گی اور انہیں وزن کیا جائے
گا۔ یعنی نیک اعمال کو حسین صورت اور برے اعمال کو بدصورت بنا کر ترازو میں رکھا
جائے گا۔
وزن
کا مقصد: اعمال کو وزن کرنے کا
مقصد صرف یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو حساب کی ضرورت ہے، بلکہ یہ بندوں کے سامنے عدلِ الٰہی کا اظہار ہوگا تاکہ وہ اپنے اعمال کا
نتیجہ دیکھ سکیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ترجمہ
کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم
نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم
کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن
کا حق ہونا: اس آیت میں واضح طور
پر بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہونا ایک یقینی حقیقت (حق) ہے۔ یہ
کوئی خیالی یا علامتی بات نہیں بلکہ ایک حقیقی عمل ہوگا۔
پلڑے
کا بھاری ہونا: جس شخص کی نیکیوں
کا پلڑا (میزان) بھاری ہوگا، وہی کامیاب، نجات یافتہ اور فلاح پانے والا ہوگا۔ یہ
اس بات کی دلیل ہے کہ نیکیوں کا وزن بہت اہمیت رکھتا ہے۔
پلڑے
کا ہلکا ہونا: اس سے اگلی آیت (الاعراف:
9) میں ہے:
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی
جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:
9)
Dawateislami