دنیا میں انسان کو اللہ تعالی نے خیر و شر کا راستہ بتانے کے بعد اس کی محدود زندگی میں اختیار دیا ہے کہ وہ اعمال کرے، اب ان اعمال کے مطابق اس انسان کو مقام ملے گا۔

میزان کیا ہے؟ : "میزان" کا لغوی مطلب وزن کرنے کا آلہ (Tool) ہے جبکہ اصطلاح شریعت میں قیامت کے دن انسانوں کے اعمال تولنے کیلئے قائم کئے جانے والے ترازو کو "میزان" کہا جاتا ہے۔

میزان کا ذکر قرآن میں : قیامت کے دن میزان قائم کئے جانے، اعمال کے تولے جانے اور نامہ اعمال ملنے تک کے تمام معاملات کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے :چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ- وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری اور انصاف کی ترازو (پ25، الشوری :17)

مزید فرمایا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)

دوسری آیت کریمہ میں شاندار انداز میں اس بات کا رد کیا گیا ہے کہ کہیں کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ جس طرح دنیا کے ترازو میں ناپ تول میں بے اعتدالی ہوتی ہے کیا وہاں بھی ہوسکتی ہے چنانچہ فرمایا : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)

ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

مزید فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)

میزان کی کیفیت :قیامت کے دن رکھے جانے والے میزان کی کیفیت اور حساب کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، امام غزالی اور امام قرطبی رحمھما اللہ نے ارشاد فرمایا : اعمال کا تولا جانا ہر ایک کے کیلئے نہیں ہوگا بلکہ ستر ہزار وہ خوش نصیب لوگ ہونگے جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے نا ہی ان کیلئے میزان ہوگا نا نامہ اعمال کا ملنا۔ (الفقہ الاکبر ،ص 171 مکتبہ المدینہ)

جبکہ میزان کی کیفیت کو جاننے کا ہمیں مکلف نہیں کیا گیا لہذا ہمارا اس کے وجود اور اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے، میزان کے عمل کے بعد انسانوں کو نامہ اعمال دیے جائیں گے کامیاب ہونے والوں کو سیدھے ہاتھ میں جبکہ ناکام ہونے والے ابدی بدبخت کو الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا۔

اس دل دہلانے والے وقت میں عافیت اور شفاعت کو طلب کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہل سنت اللہ پاک کے بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں :

یا الہی نامہ اعمال جب کھلنے لگیں

عیبِ پوش خَلق ستّارِ خطا کا ساتھ ہو