اللہ پاک نے انسانوں کو دنیا میں  اپنی عبادت کے لیے بھیجا اور اس فانی دنیا کے اختتام پر اس سے حساب لیا جائے گا اور اس کے لیے ایک دن مقرر ہے جس کو یوم الآخرۃ یا قیامت کادن کہا جاتا ہے کہ جس میں انسانوں کے اعمال کاحساب لیا جائے گا اور اعمال کو تولنے کے لیے ایک آلہ مقرر ہے جس کو میزان کہا جاتا ہے اور اس میزان کا ثبوت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے ملتا ہے اس کے متعلق اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ میزان حق ہے اور اس کی ایک چھڑی اور دو پلڑے ہیں اور ان کی شکل و صورت کے متعلق اللہ پاک ہی جانتا ہے اس کے متعلق مزید وضاحت قرآنی آیات سے سمجھتے ہیں :

میزان کی حقانیت: اللہ پاک میزان کے حق ہونے اور اس کے ذریعے اعمال کے وزن کیے جانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز العرفان : اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:8)

ترازو کے ذریعے عدل کرنے کا تذکرہ: اللہ پاک ترازو کے رکھنے اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

رسول علیہ السلام کی تشریف آوری کے وقت حساب کا آغاز: اللہ پاک بیان فرماتا ہے کہ جب کسی امت کا رسول آئے گا تو اس امت کے متعلق فیصلہ کر دیا جائے گا: وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان : اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتاہے۔ (یونس: 47)

میزان کے پلڑوں کے بھاری یا ہلکا ہونے کی وضاحت: اللہ پاک میزان کے بھاری ہونے پر جنت کی خوشخبری اور ان کے ہلکے ہونے پر دوزخ کی وعید سناتے ہوئے فرماتا ہے : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، (وہ) ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)

کفر کرنے والوں کے لیے وزن کے نا ہونے کا بیان: اللہ پاک نے کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن کفار کے لیے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہو گا: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)

اس کے علاوہ بھی کئی ایک آیات وکثیر احادیث کریمہ میزان کی حقانیت اور اس کے لیے تیاری کا درس دیتی ہیں اور قیامت کی ہولناکیوں سے ہمیں ڈراتی ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس دن کے لیے اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت میں بے حساب داخلہ عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ