محمد زوہیب اشرف (درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ اپر مال روڈ لاہور ،پاکستان)
اللہ تبارک و
تعالی نے ہر انسان کو اچھے،برے اعمال کرنے کا اختیار دیا ہے۔اور قیامت کے دن اللہ
تبارک و تعالی انسانوں سے ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب لے
گا۔اور اعمال کا حساب قیامت کے دن وزن کے ذریعے ہوگا۔اسی کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے ۔(پ8،الاعراف:9)
آئیے ! اب وزن اور میزان کا معنی پڑھتے ہیں: کسی
چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا۔اور عرف میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن
کہتے ہیں۔جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے ا سے میزان کہتے ہیں۔ (تفسیر صراط
الجنان ج 3 ص 270)
میزان
کا شرعی معنی پڑھتے ہیں: میزان ایک
ترازو ہوگا جس کے دو پلے ہوں گے اس پر لوگوں کے اچھے برے اعمال تولے جائیں گے۔ (قانون شریعت، ص 42 مکتبہ اسلامی کتب خانہ)
قرآن پاک اس میزان عمل کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟ پڑھیئے
(1) پسندیدہ
زندگی اور شعلہ مارتی آگ: اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال
جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
ان تمام آیتوں
کا خلاصہ یہ ہے : جسکے وزن دار عمل یعنی نیکیاں زیادہ ہوئیں وہ جنت میں ہوگا۔مومن
کی نیکیاں اچھی صورت میں لاکر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس
کے لئے جنت ہے۔ اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی
اور وزن ہلکا بڑھے گا کیوں کہ کفار کے اعمال باطل ہیں،ان کا کچھ وزن نہیں،تو انہیں
جہنم میں داخل کیا جائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ باطل کی پیروی کرتا تھا۔اور اس کا
ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہوگا جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو
جہنم کی آگ سے بچائے۔ آمین (ملخصا تفسیر
خزائن العرفان ص 1117)
(2)
جنتی گھر والوں کی طرف خوشی خوشی جانا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ
بِیَمِیْنِهٖۙ(۷) فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَّ یَنْقَلِبُ
اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۹) ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا
جائے گا۔اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی
خوشی پلٹے گا۔ ( الانشقاق: 7 تا 9)
ان آیتوں کا
خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جسے اس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ حساب کے بعد
اپنے جنتی گھر والوں کی طرف اپنی اس کامیابی
پرخوشی خوشی پلٹے گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 587)
(3) موت مانگنا اور بھڑکتی آگ میں داخل ہونا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ
ظَهْرِهٖۙ(۱۰) فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًاۙ(۱۱) وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاؕ(۱۲) ترجمۂ
کنز العرفان: اور رہا وہ جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ ( الانشقاق: 10 تا 12)
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ہاتھ بندھے
ہوں گے اور پیچھے سے ان کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیے جائیں گے کیونکہ کفار کے
اعمال نامے دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے لائق نہیں۔اور اچھے کام دائیں ہاتھ سے کئے جاتے
ہیں اور کفار کا کوئی بھی عمل اچھا نہیں ہے۔اور کافروں نے دنیا میں اوندھے(الٹے) کام
کئے لہذا انہیں اعمال نامے بھی اوندھی طرف یعنی پیٹھ کے پیچھے سے دیے گئے۔اور کافر
قیامت کے دن موت کی دعا کرے گا۔ یا موت کو پکارے گا۔ یا موت کی تمنا اور آرزو کرے
گا۔تاکہ وہ موت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرے۔حالانکہ کافر دنیا میں موت سے بچتا ہے
اور وہاں قیامت والے دن موت کی آرزو اور تمنا کرے گا۔اور کافر قیامت کے دن دوزخ میں
جائے گا۔(ملخصا تفسیر نور العرفان ص 939 تا 940 مکتبہ پیر بھائی کمپنی)
(4) کافروں کے لئے وزن قائم نہ کرنے کا مطلب : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَا نُقِیْمُ
لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے
قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
وزن قائم نہ
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان (کافروں)کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت
ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا
اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک
اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت
ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت
اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور
اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 6 ص 45)
البتہ اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالنا چاہے گاانہیں اعمال
کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ
کافروں کے اعمال کا وزن کیاجائے گا اسی
طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔(تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 805)
ان آیات کریمہ
سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن میزان قائم ہوگا اور اعمال کا وزن ہوگا۔تو ہمیں بھی
اللہ تبارک و تعالی سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمارا خاتمہ ایمان
پر فرمائے۔اور ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
اعلی حضرت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض کرتے ہیں:
ہم
ہیں ان کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس
سے بڑھ کر تیری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان
کی امت میں بنایا انہیں رحمت بھیجا
یوں
نہ فرما کہ ترا رحم میں دعوی کیا ہے
صدقہ
پیارے کی حیا کا نہ لے مجھ سے حساب
بخش
دے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے۔
(حدائق بخشش ص 171 مکتبۃ المدینہ)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری بخشش فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
Dawateislami