حافظ محمد علی شان (درجہ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضانِ مدینہ، جوہر ٹاؤن، لاہور ، پاکستان)
اللہ رب العزت
نے کائنات کو ایک نہایت ہی موزوں اور متوازن نظام ، پر قائم فرمایا ہے۔ اس توازن کا ایک اہم حصہ قیامت
کے دن اعمال کے حساب و کتاب کا نظام ہے، جسے میزان کہا جاتا ہے۔ میزان، یعنی
ترازو، وہ عدل کا آلہ ہے جس پر بندوں کے نیک و بد اعمال کو تولا جائے گا۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس میزان اور اس کے عدل و
انصاف کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہمیں آخرت کی جواب دہی اور دنیا میں نیک اعمال کی اہمیت
کا احساس دلاتا ہے۔
میزان
کا لغوی اور اصطلاحی معنی: لغت میں
"میزان" کا معنی تولنے کا آلہ یعنی ترازو ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، میزان
سے مراد وہ عظیم ترازو ہے جو قیامت کے دن قائم کی جائے گی تاکہ بندوں کے اعمال کا
وزن کیا جا سکے اور اسی کے مطابق انہیں
جزا یا سزا دی جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل کا مظہر ہے۔
قرآن مجید میں میزان کا ذکر مختلف سیاق و سباق میں آیا ہے،
جو اس کی اہمیت اور حقیقت کو واضح کرتا ہے
قیامت
میں عدلِ الٰہی کا مظہر: اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے انصاف کو بیان
کرتے ہوئے فرمایا: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور
ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر
کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
(پ17، الانبیاء:47)
یہ آیت واضح
کرتی ہے کہ قیامت کے دن عدل و انصاف کی بنیاد پر حساب لیا جائے گا اور ذرا برابر نیکی
یا بدی بھی ضائع نہیں ہوگی۔ اللہ کا عدل اتنا کامل ہوگا کہ کوئی ذرہ بھی چھپا نہیں
رہ سکے گا۔
اعمال کے وزن کی حقیقت: اعمال کے وزن کے بارے میں مزید وضاحت فرمائی گئی: فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ
خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں
جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
یہ آیات بتاتی
ہیں کہ کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار اعمال کے وزن پر ہوگا۔
قیامت
کے دن کی ہولناکی اور میزان کا خوف: قرآن پاک میں ایک اور مقام پر میزان کا ذکر کرتے ہوئے
آخرت کی جواب دہی کا احساس دلایا گیا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
یہ آیت تاکید
کرتی ہے کہ وزن کا عمل ایک حقیقی اور برحق ہے۔ یہ کوئی مجازی عمل نہیں بلکہ ایک
ٹھوس حقیقت ہے جس کا سامنا ہر انسان کو کرنا پڑے گا۔
میزان
پر کیا چیز تولی جائے گی؟ مفسرین اور محدثین کے اقوال کے مطابق میزان پر تین
چیزوں میں سے کوئی ایک یا مجموعہ تولا جا سکتا ہے:خود اعمال کا وزن: یعنی اعمال کو
جسمانی صورت دے کر تولا جائے گا۔
اعمال نامے کا وزن: یعنی وہ رجسٹر جن میں اعمال
لکھے گئے ہیں۔
عامل (عمل کرنے والے) کا وزن: یعنی خود بندے کو
تولا جائے گا۔
احادیثِ
مبارکہ میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ایک
شخص آئے گا جس کے گناہوں کے ننانوے (99) دفتر ہوں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا
ہوگا۔ لیکن ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمۂ طیبہ "لا إله إلا الله محمد
رسول الله" لکھا ہوگا، اور وہ
ان تمام گناہوں کے دفاتر پر بھاری ہو جائے گا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا
مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَنْشُرُ
عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا، كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ،
ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ. فَيَقُولُ: أَفَلَكَ
عُذْرٌ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ.
فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ
الْيَوْمَ، فَتُخْرَجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ. فَيَقُولُ:
يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ. فَتُوضَعُ
السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ، وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ، فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ
وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ، فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ
ترجمہ: حضرت
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک آدمی کو تمام
مخلوقات کے سامنے (علیحدہ) کرے گا، اس پر ننانوے (99) رجسٹر کھولے جائیں گے، ہر
رجسٹر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ پھر اللہ فرمائے گا: کیا تو ان میں سے کسی چیز کا
انکار کرتا ہے؟ کیا میرے نگہبان لکھنے والوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں
اے میرے رب! اللہ فرمائے گا: کیا تیری کوئی معذرت ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب!
اللہ فرمائے گا: نہیں! بلاشبہ تیری ہمارے ہاں ایک نیکی ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم
نہیں ہوگا۔ پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر ”اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا
اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ“ لکھا ہوگا۔ اللہ فرمائے گا: اپنا وزن حاضر کر۔ وہ کہے
گا: اے میرے رب! یہ پرچہ ان (ننانوے) رجسٹروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
اللہ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پس رجسٹروں کو ایک پلڑے میں رکھا
جائے گا اور پرچے کو دوسرے پلڑے میں، تو رجسٹر (ہلکے ہو کر) اڑ جائیں گے اور پرچہ
وزنی ہو جائے گا۔ اور اللہ کے نام کے ساتھ کوئی چیز وزنی نہیں ہو سکتی۔(سنن ترمذی،
کتاب الایمان، باب ما جاء فی ان کلمۃ الاخلاص تثقل الموازین، حدیث نمبر: 2639)
میزان کا قرآنی
بیان ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری کا نام ہے۔ ہمیں ہر لمحہ
اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کی کوشش کرنی
چاہیے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ قیامت کے دن ہر
چیز کا حساب لیا جائے گا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ اس دن کی کامیابی انہی کے لیے ہے
جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔
یا اللہ! ہمیں
نیک اعمال کی توفیق عطا فرما اور قیامت کے دن ہمارے میزان کو نیکیوں سے بھاری کر
دے، اور ہمیں اپنے عدل کے دن رسوائی سے بچا کر کامیابی عطا فرما۔ آمین یا رب
العالمین
Dawateislami