میزان اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اعمال کی مقداریں جانچی جاتی ہیں، حالانکہ عقل اس کی نوعیت کو سمجھنے میں قاصر ہے۔ (شرح عقائد النسفیہ ص: 368)

میزان وہ عمل ہے جو قیامت کے دن ہوگا، جب ہر ایک شخص اپنی فکر میں مبتلا ہوگا، خوف و ہراس کی حالت میں لوگ اپنے پسینوں میں بہہ رہے ہوں گے، اور ”نفسی نفسی “ کی آوازیں بلند ہوں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ نیک اور بد کے درمیان فیصلے کے لیے میزان کو استعمال فرمائے گا اور نیکوں کو ان کی جزا دے گا جبکہ بروں کو ان کی سزا ملے گی۔ قرآن پاک میں ہے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

یہ آیت ایک اہم سبق دیتی ہے کہ اللہ نے وزن کا پیمانہ مقرر کیا ہے، اس کا استعمال انصاف کے طریقے سے کرو، کسی قسم کی کمی و زیادتی نہ کرو اور لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ کرو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)

اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن وزن ہونا حق ہے اور اس میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو دنیا میں نیک اعمال کرتے تھے، اللہ اور بندوں کے حقوق کی پاسداری کرتے تھے، اور تمام برے اعمال سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، تو ان کے پلڑے بھاری ہوں گے اور وہ کامیاب، یعنی جنت میں داخل ہوں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں برے کاموں میں لگے رہے، ہر ایک کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے، تو ان کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور یہی نقصان اٹھانے والے، یعنی عذاب دوزخ پانے والے ہیں۔