انسان اس دنیا
میں آیا تو خالی ہاتھ تھا، مگر واپس جائے گا اپنے اعمال کے وزن کے ساتھ۔ دنیا میں انصاف کا ترازو بظاہر صرف بازار تک محدود نظر
آتا ہے، مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اصل میزان تو قیامت کے دن قائم ہوگی۔ آج ہم
دوسروں کا حق مار کر خوش ہو جاتے ہیں، مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل
تولا جائے گا۔ قرآن کی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انصاف
زندگی کی بنیاد ہے، چاہے باتوں کا ہو یا تولنے کا۔ آئیے قرآن کی
میزان کے متعلق دی گئی مثالوں سے سبق
سیکھیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ
فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
وزن
اور میزان کا معنی:وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
میزان
کیا ہے:میزان حق ہے یہ ایک ترازو
ہوگی اس کے دو پلے ہوں گے اِس پر لوگوں کے اچھے برے عمل تولے جائیں گے نیکی کے پلہ
کے بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اُوپر اُٹھے بخلاف دنیا کی ترازو کے۔ ( قانون
شریعت ص 15)
میزان سے متعلق دو اہم باتیں : یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں
:
(1) صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف
قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے
کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا
مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے
بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
میزان کے خطرے سے نجات پانے والا شخص: قیامت کے ہولناک مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ
وہ ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی
کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے
گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا
لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری
ہے۔
ترمذی شریف میں
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے
روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے
آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ اللہ ! ﷺ ،
میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ، میرے ساتھ خیانت
کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں انہیں گالیاں
دیتا اور مارتا ہوں ، تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدسﷺنے
ارشاد فرمایا ’’( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں نے جوتمہاری خیانت
کی ، تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں سزا
دی ، ان سب کا حساب لگایا جائے گا ، پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں کے
برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے ، نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو
گا اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصوروں سے کم ہوگا تو تجھے
ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا
تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں مار کررونے
لگا ، نبی کریم ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے اللہ تعالیٰ
کا یہ فرمان نہیں پڑھا؟
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگا ۔ (الانبیاء، آیت: 47)
اس شخص نے عرض
کی :میں اپنے اوران غلاموں کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا
، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔( ترمذی ،
کتاب التفسیر ، باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام ، ۵ /
۱۱۱ ، الحدیث: ۳۱۷۶)
Dawateislami