صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول  ﷺ بہتر جانتے ہیں۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:9)

اس آیت میں قیامت کے دن میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان کیا گیا ہے ۔

مزید یہ کہ قیامت والے دن انسان نے جو بھی اعمال کیے ہوں گے وہ سارے کے سارے میزان پر وزن کئے جائیں گے ایک ذرہ بھی نہ چھوڑا جائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)

ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

تفسیر صراط الجنان : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ:اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)

معلوم ہوا بندہ جو بھی عمل کرے گا اس کا حساب دینا ہوگا ۔ لہذا جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے ان کو جنت ملے گی اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ اللہ پاک نے فرمایا:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)

خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔

ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ بندہ وہی کامیاب ہے جس کے اعمال اچھے ہوں جس نے اللہ پاک کو راضی کیا ہو گا ۔ اور قیامت کے حساب سے پہلے اپنا حساب کیا ہو گا ۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بے حساب جنت عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم