محمد اسامہ عطاری (درجہ سابعہ
جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
میزان ایک
ترازو ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور یہ قیامت کے دن قائم کیا جائے گا جس کے
ذریعے سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا نیکوکاروں کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت
میں یہ اوپر کی جانب چلا جائے گا بر خلاف دنیا کے ترازو کےکہ دنیا میں پلڑا بھاری
ہونے کی صورت میں نیچے کی طرف آتا ہے۔
میزان
کی تعریف: جس آلے کے ساتھ چیزوں
کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، 9 / 361)
(1)میزان
حق ہے: جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی
ہے: وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:اور اس دن تول ضرور ہونی
ہے۔(پ8،الاعراف:8)جمہور
مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘
مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 6/ 78)
(2)
میزان قائم ہو گا: جیسا کہ ارشاد
باری تعالٰی ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
(3)اعمال
کا وزن ہونا: برزوقیامت اعمال کا
وزن کیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ
گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے
لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین
صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا اورایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں
داخل کر دیا جائے گا یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے
معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد10)
(4)بھاری
پلڑے کی کیفیت: فتاویٰ رضویہ میں ہے : وہ میزان یہاں کے ترازو
کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہو گا تو اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے
بیٹھے گا،جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ
الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ (ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچا ہو گا غلط ہے۔(فتاوی رضویہ ج 62 ص 626)
میزان
کی کیفیات: قیامت کے دن میزان رکھا
جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس میں سما جائیں۔
فرشتے کہیں گے: یا اللہ! اس میں کس کا وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالی ارشاد فرمائے
گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے : تو پاک ہے، ہم تیری
اس طرح عبادت نہیں کر سکے جو تیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، 5/ 807، حدیث: 8778)
اس میز ان کے
دو پلڑے ہیں، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ دوسر ا تاریک (سیاہ) پلڑا
عرش کی بائیں جانب ہے۔(الدرة الفاخرة فی كشف علوم الآخرة، ص 62) نورانی پلڑا نیکیوں
کے لئے جبکہ سیاہ پلڑا گناہوں کے لئے ہو گا۔ (التذكرة للقرطبی، ص302)حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ میز ان کا ایک پلڑا جنت پر اور دوسر ا دوزخ پر ہو ۔ (تفسیر کبیر ، الاعراف،
تحت الآيۃ : 202/58)
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبین
Dawateislami