ذیل میں قرآن کریم کی چند آیات کی روشنی میں میزان کے اصول کو واضح
کیا گیا ہے، ان میں سے چند پڑھیے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن اور میز
ان کا معنی:وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں
ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو ،
ص ۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میز
ان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ٩ /(۳۶۱) جمہور
مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ”وزن“ سے ” میز ان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد
ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآيۃ: ۸، ۲ )
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر صراط
الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال
کا وزن کیا جائے گا تا کہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پر اس کے حقوق کے معاملے میں
کچھ ظلم نہ ہو گا اور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ( روح البیان،
الانبياء ، تحت الآيۃ: ۵،۴۷ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین،
الانبياء، تحت الآيۃ : ۴۷، ص ۲۷۳، ملتقطاً)
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا
دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراط
الجنان:فَأَمَّا
مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ : تو
بہر حال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔ قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت
کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5 آیات
کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو
بھاری ہوں گے اور اس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی
میں ہو گا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی
کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہو گا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے ؟ وہ ایک
شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔
یہاں اعمال کے
وزن سے متعلق دو باتیں ذہن نشین رہیں : (1) اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں ایک
قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لاکر میز ان میں رکھی جائیں
گی ، اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں
لاکر میز ان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال
باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا، اور ایک قول یہ
ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں
برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے
تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال
کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے
اسے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (خازن، القارعۃ، تحت الآيۃ : ۶-۱۰، ۴ / ۴۰۳ ، مدارك، القارعۃ، تحت الآيۃ:۱۰-۶، ص ۱۳۷۰،
ملتقطاً)
قرآن مجید میں میزان کا تصور محض تولنے کی مشین نہیں، بلکہ
ایک کامل اصولِ عدل و توازن ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادی، اجتماعی،
معاشی اور اخلاقی زندگی میں قرآن کے اس سنہری اصول کو اپنائے۔ اگر معاشرہ میزان پر
عمل کرنے لگے تو دنیا میں انصاف، سکون اور خوشحالی قائم ہو جائے گی اور آخرت میں
اللہ کی رضا نصیب ہو گی اللہ تعالیٰ سے
دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Dawateislami