اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے ۔جو ہمیں زندگی کے ہر پہلو خواہ وہ دینی معاملات سے ہو یا اخروی حیات سے وابستہ ہو مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔شکم مادر سے لیکر لحد تک، لحد سے لیکر حشر تک تمام امور حالات واقعات سے ہمیں آگاہ کیا۔انہی امور میں سے ایک "میزان" بھی ہے ۔

میزان کا لغوی معنی: میزان کہتے ہیں ترازو،تولنے والا کانٹا اسکی جمع الموازین آتی ہے ۔

اصطلاحی معنی : میزان حق ہے ۔اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے ۔( بہار شریعت ،جلد اول ،حصہ اول،ص146، مطبوعہ المدینہ العلمیہ کراچی )

اب ہم قرآن مجید سے میزان کے متعلق ذکر کریں گے کیونکہ قرآن مجید میں ہر شے کا واضح بیان موجود ہے۔

(1) اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کہتے ہیں۔اور جس آلے کے ساتھ چیز کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔(تفسیر صراط الجنان،جلد 3، ص 269، مطبوع المدینہ العلمیہ کراچی)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے میزان کا واضح ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ ہم روز محشر عدل انصاف کے ساتھ اعمال کا وزن کرے گے ۔یعنی اس دن کسی جان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا ۔ہر ایک کو اس کے لیے کی جزا ملے گی ۔جس نے دنیا میں رہتے ہوئے جو اعمال کیے ہو گے اس کی جزاء پائے گا ۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی وضاحت میں ایک حدیث مبارکہ نقل کی ہے : حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالی میری امت میں سے ایک شخص کو سب کے سامنے بلائے گا اور اس کےسامنے اس کے گناہوں کے 99 رجسٹر کھولے جائیں گے ہر ایک رجسٹر تا حد نظر پھیلا ہوا ہوگا ۔پھر اللہ اسے فرمایا گا کہ کیا تمہیں ان میں سے کسی گناہ کا انکار ہے؟کیا لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تم پر کوئی ظلم تو نہیں کیا؟وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار نہیں اللہ تعالی اس سے فرمائے گا کیوں نہیں تمہاری ایک نیکی ہمارے ہاں محفوظ ہے اج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا چنانچہ ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہوا ہوگا"اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا رسول الله" اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا کہ اسے پیش کرو وہ شخص عرض کرے گا اے پروردگار ان رجسٹروں کے مقابلے میں اس معمولی سے پرچے کی کیا حیثیت ہے؟اللہ تعالی فرمائے گا تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ تمام رجسٹر ایک پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا تو رجسٹر والا پلڑا ہلکا ہوگا اور وہ پرچے والا باری اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مقابلے میں کوئی چیز باری نہیں۔(تفسیر ابن کثیر،جلد،3 ص317،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان:تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہنچے۔ (سورہ المؤمنون ،آیت نمبر 102)

اس آیت مبارکہ میں کامیاب ہونے والوں کے بارے میں فرمایا روز محشر جس کے اعمال نامے کا وزن بھاری ہوگا تحقیق وہی لوگ فلاح پاگئے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مطلوب کو پا لیا اور ناپسندیدہ چیز سے بچ گئے ۔ان کے برعکس جن لوگوں کی برائیاں ان کی نیکیوں سے بڑھ گئی تو یہی لوگ بے مراد ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے :اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو میزان پر مقرر ہوگا،ابن ادم کو لایا جائے گا اور اسے میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا اگر اس کی نیکیوں والا پڑھ رہا بھاری ہوا تو فرشتہ اونچی آواز سے نجات دے گا جسے تمام مخلوق سنیں گی کہ فلاں شخص نے ایسی سعادت حاصل کر لی کہ اس کے بعد کبھی بھی بدبخت نہیں ہوگا اور اگر اس کی نیکیوں والا پڑھنا ہلکا ہوا تو فرشتہ اونچی آواز سے ندا دے گا جسے سب سنیں گے کہ فلاں شکاوت کا مستحق ہوا،اب اس کے بعد کبھی بھی وہ سعادت مند نہیں ہوگا ۔(تفسیر ابن کثیر ،جلد 3، ص،440، مطبوعہ ،ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

دنیا کے ترازو اور آخرت کے ترازو میں فرق ہے دنیا میں پکڑا اگر بھاری ہوتا ہے تو وہ نیچے ہوتا ہے اگر ہلکا ہو تو اوپر اٹھتا ہے لیکن روز محشر اس کے بر خلاف ہوگا ۔جو پلہ بھاری ہوگا وہ اوپر اٹھے گا اور جو ہلکا ہوگا وہ نیچے ۔

سیدی اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ شریف میں بیان فرمایا ہے کہ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد 29،ص 626 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پاکستان)

اللہ رب العالمین سے دعا ہے ہمیں میزان عمل پر سرخرو فرمائے ۔