قرآنِ حکیم ایک کامل اور جامع کتابِ ہدایت ہے جو انسان کو ہر میدانِ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ عدل، انصاف اور میزان  قرآن کا ایک اہم موضوع ہے۔ "میزان" صرف ترازو کا نام نہیں بلکہ ہر اس نظام یا معیار کا نام ہے جس کے ذریعے انصاف، توازن اور اعتدال قائم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر "میزان" کا ذکر کیا ہے تاکہ انسان ہر عمل میں عدل و انصاف کو اختیار کرے۔ میزان کے متعلق چند قرآنی آیات اور ان کی وضاحت پڑھیئے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ۔ (المؤمنون: 102، 103)

روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے میزان میں اعمال تولے جائیں گے، اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

وضاحت: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا عدل کامل ہوگا۔ ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔

قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں اور آخرت میں میزان کے ذریعے ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ ایک اسلامی معاشرہ میزان کے اصولوں پر قائم ہو تو وہاں ظلم، بدعنوانی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔