نسل انسانی میں فرد اول سے ہی انسانوں کی اصلاح و تربیت کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہر دور میں اسکے حالات کے تقاضوں کے مطابق رب تعالیٰ تربیت انسانی کے لیے اپنے معزز بندوں کا چناوُ کرتا رہا ہے۔ جنہیں عالم انسانیت انبیاء جیسے مقدس لفط سے جانتی ہے۔ انھیں انبیاء کرام علیھم السلام میں سے اللہ تعالی کے ایک مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چونکہ ان کا مقصد بھی نفوس بشریہ کی اصلاح کرنا تھا اسی کے پیش نظر آپ نے وعظ و نصیحت کی۔ جن میں سے بعض کو قرآن پاک میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کی رب تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

ایک مسلمان کا سب سے بنیادی مقصد اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے۔ جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بھی رب تعالیٰ کی بندگی کرنے کا حکم دیا تاکہ دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ رب العزت کی بندگی کے بجائے انسانی عقول و خواہش پر عمل کرنے سے سیدھی راہ نہین ملتی بلکہ سیدھا راستہ تو صرف یہی ہے۔ کہ رب تعالیٰ کی بندگی کی جائے۔

ایک اور مقام جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے دسترخوان کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس کے مقابلے میں انھیں ڈرنے کا حکم دیا جیسا کہ رب تعالی فرماتا ہے۔ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

یہاں پر اللہ تعالی سے حکم دینے کا مطلب یہ تھا کہ نفسانی خواہشات کو ترک کر دیں۔ اور صرف جو چیزیں میسر ہیں۔ انھیں پر ہی اکتفاء کریں۔

اس سے آگے ایک اور مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف کچھ نصیحتیں کی بلکہ قوم کو ان کی نجات کے تما م ذرائع بھی بتائے کے مستقبل میں وہ کیسے زندگی گزاریں گے۔ جب نبوت سے دوری ہو گی۔ تو وہ حق کو کیسے پہچان کر اس پر عمل پیرا ہوں گئے۔ جیسا کی رب العزت نے فرمایا:

وَ اِذ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

آپ نے فرمایا کی میں اپنے سے پہلی کتب کی تصدیق کرتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ تم بھی ان کی تصدیق کرو۔ کیونکہ راہنما ہوتا ہی وہ ہے جو پہلے راستے پر خود چلے پھر قوم کو چلنے کا حکم دے اور وہ قوم کے لے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اور یہ نصیحت عملی ہے ۔

اس کے بعد آپ نے اپنی قوم پر سب سے بڑا احسان کیا کہ میں تم کو سب سے بڑی خوشخبری دیتا ہوں کہ میرے اللہ تعالی کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما ہوں گئے۔ تم ان کی پیروی کرنا اسی میں تمھاری نجات ہو گی۔ وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمۂ کنز الایمان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ تم میرے حکم کی تعمیل بھی کرو۔ نبی ماننے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ بندہ اقرار تو انکی نبوت کا کرے مگر ان کی تعلیمات سے روگردانی کرے۔ بلکہ ماننے کا مطلب یہ ہے اقرار کے ساتھ ساتھ اپنے راہنما پیغمبر کی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیروی کرنے کی نصیحت فرمائی۔

اللہ تعالی ہمیں وہ مشترکہ تعلیمات جو امت محمدیہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔


اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی اصلاح اور ترقی کےلئے انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیجا اور نبیوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں بھی کی ہے ان انبیاء کرام علیھم السلام میں سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا : وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (آیت نمبر 63 سورہ زخرف)

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6) ترجمۂ کنز الایمان :اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(14) ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے۔

ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﳔ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةًؕ- وَ رَهْبَانِیَّةَ-ﰳابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ-فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْۚ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۲۷)

ترجمۂ کنز الایمان:پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اَور رسول بھیجے اور اُن کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اُسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں بہتیرے فاسق ہیں ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(28) ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں چلو اور تمہیں بخش دیگا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔


نصیحت کا لغوی معنی ”اچھی صلاح، نیک مشورہ “ کے ہیں۔ اسی کا ایک دوسرا لفظ ہے نصیحت آمیز یعنی عبرت دلانے والی بات۔ (فیروزاللغات،ص1430)

نصیحت قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی بھی۔ لوگوں کو اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ باتوں کی طرف بلانے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچانے اور دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ وعظ و نصیحت بھی ہے۔وعظ و نصیحت دینی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زندگی کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے طبیعت خراب ہونے کی صورت میں دوا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام اپنی قوموں وعظ و نصیحت فرماتے رہے، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو مختلف مواقع پر مختلف انداز میں نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت:حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ(۵۰)ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پ3، اٰل عمرٰن:50)

(2)اللہ کی عبادت اور سیدھے راستے کی نصیحت:قراٰنِ کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ایک نصیحت کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۵۱) ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (پ3، اٰل عمرٰن: 51)

(3)شرک کی مذمت کرتے ہوئے اس سے بچنے کی نصیحت: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی کہ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے والوں پر اللہ پاک نے جنت حرام اورجہنم حلال فرما دی ہےاور اسی طرح ظالموں کا بھی کوئی مددگار نہیں جیسےارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُؕ- وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)﴾ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور مسیح نے تو یہ کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب بے شک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (پ6، المآئدۃ: 72)

(4)مستحق عبادت صرف اللہ پاک ہے: مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو نفع نقصان وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو اورجو ایسا نہ ہو وہ مستحق عبادت نہیں ہوسکتا جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قول قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ﴿قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًاؕ-وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۷۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے۔ (پ6، المآئدۃ: 76)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی مبارک نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم