محمد شاہ زیب سلیم عطاری (درجۂ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انبیائے کرام
علیہم الصلوۃ والسلام کا تذکرہ ، ان کے احوال واقعات کا بیان قرآن مجید فرقان حمید
کا اہم ترین حصہ ہے۔ اللہ عز و جل نے اپنے حبیب لبیب کو بھی انبیائے کرام علیہ
اسلام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو جائے اور یہ ذکر سن کر لوگ ان نفوس قدسیہ کی پاک خصلتوں
سے نیکیوں کا ذوق وشوق حاصل کریں۔ قرآن کریم میں انبیائے کرام علیہم السلام کے
تصرف و اختیار اور معجزات و کمالات کا بیان ہے جس سے کفار کے باطل نظریات کار د
ہوتا ہے نیز ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بے مثل بحر میں ان کی طاقت
و قدرت اور شان و عظمت عام انسانوں سے کہیں بلند و بالا ہے۔ اور ان انبیاء کرام علیہم
السلام میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ اللہ عزوجل نے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے
(1)
بندگی کرنا :اللہ عزوجل قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے :وَ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌترجمہ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ
رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔
وَ إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس آیت میں
مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَيْہ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَيْهِ
الصَّلُوةُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارا رب ہے،
اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو
احکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر
جاتا ہے۔(پاره 16 سورت مریم آیت 36 تفسير صراط الجنان )
2)سیدھی
راہ:اللہ عزوجل قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے :وَ
لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ
لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ
مُّسْتَقِیْمٌ
ترجمۂ کنز
الایمان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا
اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ
سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی
راہ ہے۔(پارہ 25 سورت الزخرف آیت 63 64 )
3)اللہ
عزوجل سے ڈرو :اِذْ
قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ
یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز
الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر
آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
بعض مفسرین نے
کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ
سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو
تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔(پارہ 7 سورت المائدہ آیت
112 تفسیر صراط الجنان )
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی نصیحت اور توریت کی تصدیق :اَنِّیْ قَدْ
جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۔ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ
كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ
اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ
بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ
لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ. وَ مُصَدِّقًا لِّمَا
بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ
عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
ترجمہ کنزالایمان
:میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے
پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے
اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں
مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے
گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان
رکھتے ہو۔اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی اور اس لئے کہ حلال
کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی
طرف سے نشانی لایا ہوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پارہ 3 سورت آل عمران
آیت 49 تا 50)
اللہ
عزوجل کو پوجو :اللہ عزوجل قرآن کریم
میں ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا
صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز
الایمان:بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔
{اِنَّ
اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ: بیشک
اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا
یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے
کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ میں اتنی قدرتوں اور
علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء واولیاء
کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب
مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔(پارہ 3 سورت آل
عمران آیت 51 تفسیر صراط الجنان)
ذیشان علی (درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ راولپنڈی ، پاکستان)
لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا
مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ
وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا
تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا
کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ ﴿۸۷﴾بقرہ ترجمۂ
کنز الایمان:اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے
اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی
تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر
کرتے ہوتو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو۔
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ
وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ
مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ
اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾آل عمران اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت
کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں
تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ہوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔
اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ
ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۵۱﴾آل عمران
بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ
﴿۶۰﴾ ترجمۂ کنز الایمان:اے سننے
والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا۔
قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ
یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ
رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا
اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾مائده۔ ترجمۂ
کنز الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم
پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ
یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾ مائده ترجمۂ کنز الایمان:اللہ
نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اُتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کرے گا تو بیشک میں
اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔
قَالَ الله: اللہ نے فرمایا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی درخواست کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ میں وہ دسترخوان
اتارتا ہوں لیکن اس کے نازل ہونے کے بعدجو کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں
کسی کو نہ دوں گا،چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا ،اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے
کفر کیا وہ صورتیں مَسخ کرکے خنزیر بنادیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہوگئے۔(
تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۶۶)
حضرت سیدنا عیسی
علیہ السلام فرماتے ہیں احسان وہ نہیں کہ تو بھلائی کے عوض بھلائی کر دے یہ تو
بدلہ چکانا ہے احسان یہ ہے کہ جو تیرے ساتھ برائی کریں تو ان کے ساتھ بھلائی کر۔
(تفسیر کبیر سورہ آل عمرآن تحت آیت134)
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ
تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْؕ-فَلَمَّا
زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ
الْفٰسِقِیْنَ(5سورة الصف) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی
قوم سے کہا اے میری قوم مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف
اللہ کا رسول ہوں پھر جب وہ ٹیڑھے ہوئے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور فاسق
لوگوں کو اللہ راہ نہیں دیتا۔
یعنی اے حبیب
! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی قوم کے سامنے وہ
واقعہ بیان کریں جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا، اے میری قوم! آیات کا انکار
کرکے اور میرے اوپر جھوٹی تہمتیں لگا کر
مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم یقین کے
ساتھ جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور رسول کی تعظیم واجب ، ان کی توقیر اور
احترام لازم ہے اور انہیں ایذا دینا سخت
حرام اور انتہا درجہ کی بدنصیبی ہے۔ پھر جب وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایذا دے کر راہ ِحق
سے مُنْحَرِف اورٹیڑھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اِتّباعِ حق کی توفیق سے محروم کرکے ان کے دل ٹیڑھے
کردئیے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
جو اس کے علم میں نافرمان ہیں ( تفسير
صراط الجنان تحت الآيۃ)
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ
اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ
مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ
اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(سورة الصف6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب
عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی
کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف
لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے
بولے یہ کھلا جادو ہے۔
امیر حمزہ (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ سیالکوٹ ، پاکستان)
آپ علیہ
السّلام کا مبارک نام "عیسٰی" اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے
جا ملتا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام الله تعالی کے مقبول بندے،برگزیدہ نبی اور
اولوالعزم یعنی عزت ہمت والے رسول ہیں آپ علیہ السّلام نے خیرخواہی کا جزبہ رکھتے
ہوئے اپنی قوم کو مختلف نصیحتیں فرمائیں
جن میں سے کچھ پڑھتے ہیں۔
1.2..خوفِ
خُدا اختیار کرنے اور اپنی اطاعت کرنے کی نصیحت:حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے لوگوں کو الله پاک سے ڈرنے کی
نصیحت فرمائ اور بحیثیت نبی اپنی اطاعت کی نصیحت فرمائ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ (پ3،آل
عمران50)ترجمۂ کنزالعرفان: اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
3....الله
پاک کی عبادت کرو اور یہی سیدھا رستہ ہے۔حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم کو معبودِ برحق، الله ربُّ العزت کی
عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی اور سمجھایا کہ یہی سیدھا راستہ ہے اس پر چلنے سے تم
گراہ نہیں ہو سکتے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:-اِنَّ اللّٰهَ
رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ[پ3،آل عمران51]ترجمۂ کنز العرفان:- بیشک اللہ
میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔
4....الله
جلّ شانہ سب کا ربّ ہے۔آپ علیہ
السّلام نے شرک کی جڑ کاٹتے ہوئے اپنی قوم
کو صریح الفاظ کیساتھ نصیحت فرمائی کہ ربوبیت
صرف اللّٰه پاک کیساتھ متّصف ہے الله پاک ہی سب کا ربّ ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اِنَّ
اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ[پ3،آل
عمران51]ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہےالله پاک ہمیں
انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عارف خان عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ
اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ
وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(45) ترجمۂ
کنز الایمان :اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا
ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رُو دار ہوگا دنیا
اور آخرت میں اور قرب والا۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ
السَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے
کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں
اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا
کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ
السَّلَام بغیر باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کوئی باپ ہوتاتو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔جیسا کہ قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ
اللّٰهِ(احزاب: ۵)ترجمۂ کنزُالعِرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک
انصاف کے زیادہ قریب ہے۔
وَ قَفَّیْنَا
عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ
مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا
لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ(46)
ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان
کے نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی
اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور
ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کو۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام توریت کی تصدیق فرمانے والے تھے کہ تورات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نازل
کردہ کتاب ہے اور توریت کے منسوخ ہونے سے پہلے اس پر عمل واجب تھا، حضرت عیسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں توریت کے بعض احکام منسوخ کردئیے
گئے۔ اس کے بعد انجیل کی شان بیان فرمائی گئی کہ اس میں ہدایت اور نور تھا اور ہدایت اور نصیحت تھی ۔ پہلی جگہ ہدایت سے مراد ضلالت و جہالت سے بچانے کے لیے رہنمائی
کرنا ہے اور دوسری جگہ ہدایت سے سیدُ
الانبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف
آوری کی بشارت مراد ہے جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی نبوت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کا سبب ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱ / ۵۰۰)
اِذْ
قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ
یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان:جب
حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک
خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام سے عرض کی کہ کیا آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہم پر آسمان سے نعمتوں سے بھرپور
دسترخوان اتارے گا۔ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا
قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا
نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ
اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے
معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ
معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال
نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔( تفسیر قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۲۶،
الجزء السادس، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲،
۱ / ۵۳۹، ملتقطاً)
وَ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ
رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔
چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے
سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو
جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۳۵) وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ
فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(61) ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک عیسیٰ قیامت کی
خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی
علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت
کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس
کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ:
۶۱، ص۱۱۰۴،
ملخصاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر تشریف لانا برحق ہے کیونکہ
ان کا آنا قیامت کی علامت ہے، لیکن یہ یاد رہے آپ کا وہ آناسیّد المرسَلین
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا نبی بن کر نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند
ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی
نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۲۲۲۲)
علی زین (دورۂ حدیث مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن
لاہور، پاکستان)
حضرت عیسی روح
اللہ علی نبینا علیہ السلام اللہ تبارک تعالیٰ کے پیارے نبی اور رسول ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ آپ کا ذکر خیر فرمایا ۔اللہ
تبارک تعالیٰ نے آپ کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا آپ بنی اسرائیل پر مبعوث ہونے والے
آخری نبی ہیں آپ نے اپنی قوم کو بہت ساری نصیحتیں فرمائی نیکی کا حکم دیا اور برائی
سے منع کیا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کا درس دیا جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی بہت
سی جگہوں پر آیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ
السلام نے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حکم دیتے تھے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تبارک
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
" وَ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(سورہ مریم آیت نمبر 36) ترجمہ کنز الایمان: اور
عیسیٰ نے کہا بے شک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔
اس کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے
اپنی قوم کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی خبر
دی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں اسطرح فرمایا ہے: وَ اِذْ قَالَ
عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ
مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ
مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا
هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(پارہ نمبر
28سورہ الصف آیت نمبر 6) ترجمہ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا
اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق
کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام
احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو
ہے۔
اس مذکورہ آیت
مبارکہ میں حضور علیہ السلام کی تشریف آوری کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ اپنے نبی
ہونے کی بھی تصدیق فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتاب کی بھی تصدیق فرمائی ۔ اور
اس آیت مبارکہ میں ایک اور اہم بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے
اپنے بعد فقط حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اس سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ عزوجل کے آخری نبی اور رسول ہیں
قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کا اپنی قوم کو نصیحت کرنے کے بارے میں ذکر آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام نے اپنی قوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا جیسا کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں
ارشاد فرمایا:
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ
جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ
فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(پارہ نمبر 25 سورہ زخرف آیت نمبر 63) ترجمہ کنزالعرفان:
اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور
اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے
ڈرو اور میرا حکم مانو۔
اور حضرت عیسیٰ
علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا جیسا کہ قرآن کریم میں
ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ
هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(پارہ نمبر25 سورہ زخرف آیت نمبر 64) ترجمہ
کنزالعرفان: بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا
رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں انبیاء کی تعظیم
کرنے اور ان کے تمام احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔
شہاب الدین عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
دنیائے عالم میں
انسانوں کی تربیت ان کی رشد و ہدایت کے لیے
، کفر و ضلالت سے نکالنے کے لیے اللہ عزوجل اپنے محبوب بندوں کو بھیجتا ہے روش
نشانیوں کے ساتھ ۔ ان روشن نشانیوں میں سے
ایک روشن نشانی وعظ و نصیحت بھی ہوتی ہے ۔ نصیحت کے معنی ہیں " خیر خواہی
" کے ہیں ۔ چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام سب سے بڑھ کر لوگوں کے خیر خواہ
ہوتے ہیں یہ قول و فعل اور اپنی ہر محبوب ادا سے لوگوں کو نصحیت فرماتے ہیں ان کی
خیر خواہی کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ ان کی مبارک نصیحتوں سے جوکہ پر مغز ،دل سوز ،
دل نظیر و دل پذیر ہوتی ہیں ،اللہ عزوجل لوگوں کی اصلاح فرماتا ہے تاکہ لوگ ابطالِ
باطل شیطانی رستوں سے نکل کر راہِ خدا کی جانب سفر کرتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچ
جائیں۔ ( امیر اہلسنت کی 786 نصیحتیں، صفحہ نمبر 5 )
اللہ عزوجل کے
محبوب اور اولو العزم انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ
والسلام بھی ہیں جن کو اللہ عزوجل نے بے شمار انعامات و اوصاف و کمالات سے نوازا ۔
آپ کو روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور آپ کو کلمتہ اللہ ، روح اللہ جیسے مبارک نام
سے قرآن پاک میں یاد فرمایا ۔ آپ کی قوم افراط و تفریط کا شکار تھی ناجانے کیسے
غلط ملط عقائد کے حامل لوگ تھے ۔ آپ نے اللہ عزوجل کی عطا کردہ روشن نشانیوں سے
انہیں راہے حق پر لانے کی کوشش کی جیسے انہیں معجزات دیکھانا اور انہیں کتاب اللہ
کے احکامات بتانا وغیرہا ۔ انہی میں سے ایک کڑی وعظ و نصیحت کی بھی ہے جو آپ نے
مختلف مقامات میں اپنی قوم کو نصحیت کرتے ہوئے فرمایا ۔ آئیے قرآن مجید فرقان حمید
کی روشنی میں آپ کی قرآنی نصیحتوں کو جانتے ہیں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ
الصلٰوۃ والسلام کی قرآنی نصیحتیں :
1:
قوم میں موجود اختلاف کو ختم کرتے ہوئے آپ کا نصیحت فرمانا: ایک موقع پر آپ نے بنی اسرائیل کو یوں نصیحت فرمائی کہ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ
قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ
تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْن ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں
تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں
تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ ( پارہ 25 ، سورہ الزخرف ،
آیت نمبر 63)
2،3:
اللہ عزوجل میرا رب ہے اسی کی عبادت کرو: اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ
رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمہ کنزالایمان: بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔ ( پارہ 25 ،
سورہ الزخرف ، آیت نمبر 64)
اسی طرح ایک
موقع پر آپ نے اپنی عبدیت کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ
رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب
اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔ ( سورہ ال عمران ، آیت نمبر 51)
تفسیر صراط
الجنان میں اسی آیت کریمہ کے تحت مفتی اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور
اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا
کہ میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی
خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔
4
:اللہ عزوجل سے ڈرو : خوفِ خدا ایک
ایسی نعمت ہے جو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ آپ نے اپنی قوم کو ایمان کی
دعوت دیتے ہوئے ، ان کے عقائد باطلہ کا رد کرتے ہوئے کئی مقامات پر تنبیہ کرتے
ہوئے ، ڈراتے ہوئے فرمایا اے بنی اسرائیل اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈرو ۔ خوف خدا کی
نعمت سے ہی کامیاب ہوتا ہے چنانچہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا : فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْن ترجمہ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو (سورہ ال
عمران ، آیت نمبر 50)
آپ کی مبارک
اس ادا سے واضح، اظہر من الشمس ہے کہ آپ نے ان کی خیر خواہی کا ہر طرح سے سامان مہیا
کیا ۔ اپنے قول و فعل اور دیگر روشن نشانیوں سے ۔ انہیں حق کی جانب لانے میں وعظ و
نصیحت بھی فرمائی۔ جن میں سے چند خوش نصیب
ایمان بھی لائے جنہیں حواری کہا جاتا ہے ۔ معلوم ہوا مہ وعظ و نصیحت ایک ایسا موثر
طریقہ ہے جس سے بندا ایمان جیسی لازوال دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے ۔ ہمیں بھی
چاہیے کہ خوب علم دین حاصل کریں عالِم دین بنیں ، صحیح العقیدہ سنی یعنی عقائدِ
اہلسنت کا علم حاصل کریں جس سے بندہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان بنتا ہے ۔ انبیاء
کرام علیہم السلام کی مبارک سیرت کا مطالعہ کریں ۔ قرآن مجید فرقان حمید کی آسان
فہم تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ کریں تاکہ قرآن پاک میں جو نصیحتوں اور قصص کے نایاب
گوہر موتی ہیں، ان سے فائدہ حاصل کیا جا سکے ۔ فطرتی طور پر اپنے سے بڑے اور نیک سیرت
شخص سے بندہ کہتا ہے کہ مجھے نصیحت کر دیجیے ۔
تو آئیے ہم قرآن مجید میں جو نصیحتیں کی گئی ہیں
ان کا مطالعہ کرتے ہیں جیسے انبیا کرام علیہم السلام کی نصیحتیں اپنی قوموں کو اور
سورہ لقمان میں حضرت لقمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے بیٹے کو نصیحت ۔ ان
شاءاللہ عزوجل ان کے مطالعہ سے اور پھر عمل سے کامیابیاں حاصل ہوں گئیں ۔
دعا ہے کہ
اللہ عزوجل ہمیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور خوب نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔
محمد عرفان عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
نصیحت کا عام معنی خیر خواہی ہے
خواہ قول کی صورت میں ہو یا عمل کی صورت میں وعظ ، اسی قولی نصیحت کی ایک صورت ہے
جس سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کو پسندیدہ چین کی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ،
اچھے عمل کی طرف راغب کرے اور برے عمل کے انجام سے ڈرائے۔ جسمانی صحت کی خرابی میں
جیسے دوا کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی طرح دینی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زندگی کی
خرابی سے نجات یا حفاظت کے لئے نصیحت کی حاجت ہوتی ہے۔ نصیحت کی تاثیر کے لئے ناصح
(یعنی جس کو نصیت کی جائے) کے دل میں شفقت اور ہمدردی کا ہونا ضروری ہے پھر نصیحت
کی نوعیت فایدہ دے گی ۔ اب آئیے سب سے
پہلے حضرت عیسی کا مختصر تعارف بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عیسی کا نسب حضرت داود علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ آپکی کنیت ابن مریم اور مسیح، کلمة اللہ اور روح
الله ہیں۔ آپ علیہ سلام کا رنگ سرخ ، بال گھنگھرالے تھے اور آپ کا سینہ چوڑا
تھا۔ (سیرت الانبیاء 1793-14)
اب قرآن پاک کی
روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں جو آپ نے نے
اپنی قوم کو کی :
سیدھا
راستہ : اِنَّ اللّٰهَ
رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ
کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا
راستہ۔( سورہ ال عمران ، آیت نمبر 51)
اللہ
تعالیٰ سے ڈرو: قَالَ
اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:
کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔ (
سورہ مائدہ آیت نمبر 112)
اس میں ہمارے لیے نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ ہم وتعالی کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں
ایمان جیسی دولت سے مالا مال فرمایا ۔ دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں نصحیت پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
۔
محمد عمر فاروق عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
حضرتِ عیسی
روح الله علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام الله تعالیٰ کے مقبول بندے ، برگزیدہ
نبی اور اولوالعزم یعنی عزت و ہمت والے رسول ہیں۔ آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی
طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی اور برائی
سے منع فرمایا اور وعظ و نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔
نصیحت کا عام
معنیٰ "خیر خوائی" ہے خواہ قول کی صورت میں ہو یا عمل کی صورت میں۔ وعظ اسی قولی نصیحت کی ایک قسم ہے جس سے مراد وہ
چیز ہے جو انسان کو پسندیدہ چیز کی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ، دل میں نرمی پیدا
کرے ، اچھے عمل کی طرف راغب کرے اور برے عمل کے انجام سے ڈرائے۔ (امیرِ اہلِ سنت کی
786 نصیحتیں ، ص 5)
حضرت
عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآنی نصیحتیں: نصیحت کرنا سنتِ انبیاء کرام علیھم السلام ہے۔ حضرت عیسی
علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحتیں ارشاد فرمائیں انھیں قرآنِِ مجید میں الله
تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
1:
الله تعالیٰ کی عبادت کرو۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو الله کی عبادت کرنے کی نصیحت ارشاد فرمائی۔ چنانچہ
قرآنِ مجید نے اسے یوں بیان کیا ہے: اِنَّ
اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ
کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا
راستہ۔ ( سورہ آل عمران ، آیت نمبر 51)
2:
قوم کا اختلاف ختم کرتے ہوئے نصیحت۔ قوم
میں موجود اختلاف کو ختم کرتے ہوئے آپ نے نصیحت ارشاد فرمائی:
لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ
جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ
فِیْهِۚ ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں
تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں
تم اختلاف رکھتے ہو ( پارہ 25 ، سورہ الزخرف ، آیت نمبر 63)
3،4:
الله عزوجل سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے الله پاک سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کی نصیحت ارشاد
فرمائی: فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْن ترجمہ
کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو (سورہ آل عمران ، آیت نمبر 50)
غافلین کو تنبیہات
کی ضرورت ہوتی ہے۔ نصیحت غافل دلوں کو جلا بخشتی ہے۔ الله ہمیں بھی محبوبِ کائنات
کے صدقے وعظ و نصیحت پر عمل کرنے اور دوسروں کو اپنے مرتبے اور اس کے رتبے کو
پہچانتے ہوئے نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عظمت فرید عطّاری (درجۂ سادسہ
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو اللہ تبارک و تعالی نے اس کائنات
کے نظام کو چلانے کے لیے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب کیا
جنہیں انبیاء و رسل کہا جاتا ہے انہی انبیاء میں
سے ایک ہستی جن کا نام جناب سیدنا شعیب علیہ
السلام ہے ان کے حوالے سے پڑھیں گے ۔ کئی مقامات پر ملتا ہے ایک مقام پر اللہ تبارک و تعالی اپنی کتاب قرآن
مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ
مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا
النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ
خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)
ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا
کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے
پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں
گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان
لاؤ۔
تفسیر صراط الجنان: وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی
طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔ مدین
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا
نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور
مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین
کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں
سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت
الآیۃ: 85، 2 / 691،ملتقتاً)
قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ
رَّبِّكُمْ: بے شک تمہارے پاس
تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔ اس
آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے
تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا
تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی
ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا ’’یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں
گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔
(البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 4 / 339)
فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ: تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور
دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی
اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں
اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ
بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ
کرو۔
اسی طرح اللہ
تبارک و تعالی حضرت شعیب علیہ السلام حوالے سے ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا
الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ
عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی
طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں
اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
تفسیر صراط الجنان: وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی
طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔
اس سورت میں ذکر کئے گئے واقعات میں سے یہ چھٹا
واقعہ ہے، مدین حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایک بیٹے کا نام
ہے، بعد میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا
اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت
ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔
آیت کا
خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم دیا جاتا
ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت
کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا : اے میری قوم !
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔ توحید کی دعوت دینے
کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جو
کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی اہمیت ہو اس
کی دعوت دیں۔
کفر کے بعد
چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں
کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ
وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز
فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے
میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری
عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا ’’ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔
اس کے بعد
فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے
کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے
حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے
محروم نہ کردیئے جائو، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر
گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے
سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔ (تفسیر
کبیر، ہود، تحت الآیۃ: 84، 6 / 384، مدارک، ہود تحت الآیۃ: 84، ص508تا509،
ملتقطاً)
نوٹ:سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 85 تا
93 میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قومِ مدین کے ساتھ معاملات کی
بعض تفصیلات گزر چکی ہیں۔
اسی طرح ایک
اور مقام پر پروردگار عالم عزوجل قران پاک حضرت شعیب علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے جس میں شعیب علیہ السلام اپنی
قوم کو وعظ و نصیحت فرما رہے ہیں: اللہ
پاک فرماتا ہے : اِذْ
قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177) اِنِّیْ
لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178) فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179) وَ
مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمۂ کنز الایمان: جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا
ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا
حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے
جہان کا رب ہے۔
تفسیر صراط الجنان: اِذْ قَالَ
لَهُمْ شُعَیْبٌ: جب ان سے شعیب نے
فرمایا۔ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں کو
جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم
کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں ڈرتے!بے شک میں تمہارے لئے اللہ
تعالٰی کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دے رہا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔
{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ
عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا۔} ان تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالٰی
کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں اخلاص کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں لیتے تھے، لہٰذا سب نے یہی فرمایا۔( خازن،
الشعراء، تحت الآیۃ: 180، 3 / 394)
حضرت شعیب علیہ
السلام کا مختصر تعارف:
آپ
علیہ السلام کی بعثت: اللہ تبارک و
تعالی نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا 1.اہل مدین ۔ 2. اصحاب الایکہ.
آپ علیہ
السلام کا نام مبارک شعیب ہے اور حسن بیاں
کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے
ہیں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم جب
حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے
سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و
مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا۔ اللہ تبارک و تعالی ہمیں اپنے انبیاء
کا صحیح معنوں میں ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
راشد فرید (درجۂ ثانیہ جامعۃ
المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
تو آج ہم ان شاءاللہ
حضرت عیسی علیہ اسلام کی جو قرآن پاک میں
نصیحتیں بیان ہوئی ہے ان کو پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے آپ اللہ تعالی کے
برگزیدہ بندے اور اولو العزم رسولوں میں
سے ایک ہے آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسی “ اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ
السلام سے جاملتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی کنیت ” ابن مریم ہے اور تین القاب ہیں۔
اور جو آپ نے آپ ی قوم کو نصیحتیں کی آپ کی ان نصیحتوں کو اللہ پاک نے قران پاک میں
اس طرح ارشاد فرمایا ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ
اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ
مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ
اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ترجمہ
کنزالعرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری
طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم
رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب
وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔(پ28،
الصف، آیت نمبر 6)
اس آیت کریمہ
میں آپ کی اس نصیحت کو بیان کیا جارہا ہے کہ جو آپ نے بنی اسرائیل کو کی تھی کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور میں اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرتا ہوں، اور
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دیتا ہو جس کا نام احمد ہے ، تو پتہ یہ چلا
کہ کافروں کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا علم تھا مگر ماننا نہ
تھا ان کو اسی اسی طرح ایک اور مقام پہ آپ علیہ السلام کی نصیحتوں
کو اللہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے :
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ
قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ
تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالعرفان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا تواس
نے فرمایا: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیاہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں ) تاکہ میں
تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا
حکم مانو۔ (پ25،س الزخرف، آیت نمبر 63)
اس آیت میں
اللہ پاک نے آپ کی اس نصیحت کو بیان فرمایا
ہے کہ جو آپ نشانیاں لے کے آئے تھے اور آپ نے ایک یہ بھی ان لوگوں کو نصحت فرمائی
کہ تم میں جو باتیں غلط ان کو چھوڑ دو اور اللہ پاک سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ اور
اس سے اگلی آیت میں آپ کی اس نصیحت کو بیان فرمایا اللہ پاک نے کہ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ
رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمہ
کنزالعرفان: بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ
سیدھا راستہ ہے (پ25، الزخرف، آیت نمبر 64)
تو اس آیت آپ
کی اس نصیحت کو بیان کیا جارہا ہے کہ آپ نے فرمایا میرا بھی وہی رب ہے اور تمہارا
بھی تو میں بھی اسی کی عبادت کرتا ہو اور
تم بھی اسی کی عبادت کرو یہی سیدا راستہ
ہے۔ تو میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو ہم نے پڑھا اس پہ عمل
کرنے کو اور اس کو یاد کریں کے توفیق عطا فرمائے ۔آمین
ابو واصف کاشف علی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
آج ہم ان شاءاللہ حضرت شعیب علیہ
السلام کی نصیحتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے جو قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں اور
اس میں مشترک بات یہ ہے کہ جو انہوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں کی ان نصیحتوں کی ہمیں
بہت ضرورت ہے کیونکہ جیسا انکی قوم کرتی تھی ان میں سے اکثر چیزیں وہ ہے جو آج کے
دور میں ہمارے درمیان بھی پائی جاتی ہے تو ہم پہلے آپ کا تعارف پڑھتے ہے
خطیب الانبیاء
حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ
السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صبری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل
میں سے تھے۔ آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے ۔ یہاں کے لوگ کفر و شرک ، بت
پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے۔ آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحید
و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد
تلف کرنے سے منع کیا۔ آپ علیہ السلام کو
اصحاب ایکہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ بھی اہل مدین جیسے ہی گناہوں میں
مبتلا تھے ، انہوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی ۔
آپ علیہ
السلام کا اسم گرامی شعیب “ ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو ” خطیب الانبیاء “
کہا جاتا ہے۔ امام ترندی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں : حضور پر نور صلی الله عليه
واله وسلم جب حضرت شعیب علیه السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے "وہ خطیب الانبیاء
تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں
لطف و مہربانی اور نرمی کو بطورِ خاص پیش نظر رکھا۔ ( نوادر الأصول، الأصل الخامس
والستون والمائتان،1121/2، تحت الحدیث: 1439)حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی
قوموں کا اجمالی ذکر قرآن پاک کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل 5
سورتوں میں ہے،
(1) سوره
اعراف، آیت: 85 تا 93 (2) سورہ ہود، آیت: 84 تا 95
(3) سورہ حجر،
آیت : 78، 79 ۔
(4) سوره
شعراء، آیت : 176 تا 190
(5) سورۂ
عنکبوت، آیت : 37،36۔
اللہ پاک سورہ
ھود میں آپ کی نصحتوں کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا
الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ
عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمہ
کنزالعرفان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا :اے میری
قوم !اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی
نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے
دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ (پ 12، ھود، آیت نمبر 84)
اس آیت میں آپ
کی اس نصیحت کو بیان کیا جارہا ہے جو آپ نے مدین والوں کو کی تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ نے انہیں فرمایا ۔تم اللہ
کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراوں ، ناپ و تول میں کمی نہ کروں، میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہو لیکن آپ نے فرمایا
کہ مجھے خوف ہے عذاب کا جو تمہیں گھیر لے گا اور اس سے اگلی آیت کے اندر بھی اللہ
پاک ان کی نصیحت کو تذکرہ کچھ یوں بیان فرماتا ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ
بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی
الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ
کنزالعرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان
کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ (پ 12،س ھود،آیت نمبر
85)
اس آیت میں آپ
اپنی قوم کو ناپ و تول میں انصاف کرنے ، لوگوں کو ان کی مکمل چیزیں دینے اور زمین
میں فساد نہ کرنے کے متعلق نصیحت فرما رہیں ہے کیونکہ آپ کی قوم ناپ و تول وغیرہ میں کمی کرتی تھی اور اس سے اگلی آیت میں اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے : بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمہ کنزالعرفان: اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے
لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔
مزید ایک
دوسرے مقام پہ آپ کی اپنی قوم کے لیے جو نصیحتیں کی تھی ان کو اللہ پاک نے قرآن
پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ
اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے
کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (پ19،
الشعراء،آیت نمبر 180)
اس آیت میں آپ
اپنی قوم کو ارشاد فرما رہے ہے کہ اے میری قوم میں جو تمہیں نصیحت کرتا ہو میں اس
پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر جو ہے وہ اللہ پاک ہی عطاء فرمائے
گا۔
تو میرے محترم
اسلامی بھائیوں آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں کتنی ضرورت ہے ان نصیحتوں پہ عمل کرنے کی۔
کیا آج کے دور میں ہم ناپ و تول میں کمی نہیں کرتے ؟ ہم کتنے ہی لوگوں کو جانتے ہے
جو پہلے مسلمان تھے پھر انہوں نے معاذاللہ توحید کا انکار کر دیا جنہیں ہم سیکولر ازم اور لادینیت وغیرہ کے نام سے جانتے ہے
تو میرے محترم اسلامی بھائیوں یاد رکھو ایک موت سب کو آنی ہے اور اس موت کو پوری
دنیا میں کوئی بھی شخص انکار نہیں کرتا، تو جب موت آنی ہے تو ہمیں اس کی تیاری بھی
کرنی چاہے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں موت کی تیاری کرنے اور ان نصحتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطاء
فرمائے۔ آمین
حافظ محمد حماس (ڈرجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
حضرت عیسی علیہ السَّلام:آپ عَلَيْهِ السَّلام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے،
برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔ آپ عَلَيْهِ السَّلام
کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے ، آپ عَلَيْهِ السَّلام حضرت مریم رضی
الله عنها سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے،
یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے
بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں
گے ، ہمارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت پر
عمل کریں گے ، صلیب توڑیں اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے ، چالیس سال تک زمین پر
قیام فرمائیں گے ، پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے حجرہ میں مدفون
ہوں گے۔
نام
و نسب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسی “ اور آپ کا
نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے جاملتا ہے۔
کنیت
و لقب
:آپ علیہ السلام کی کنیت "
ابن مریم“ ہے اور تین القاب یہ ہیں۔ (1) مسیح۔ (2)كلمۃ الله (3) روح الله
نماز
و زکوة:نماز و زکوۃ سے متعلق آپ علیہ السلام نے شیر
خوارگی کی عمر ہی میں لوگوں سے فرمادیا تھا کہ وَ اَوْصٰنِیْ
بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا ترجمہ کنز العرفان: اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں
زندہ رہوں (پ16.مریم31)
اور رہی مال
کی زکوٰۃ تو یہ حضرت عیسی علیہ السلام پر فرض نہ تھی کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ انبیاء
علیهم السلام پر زکوۃ فرض نہیں اور مذکورہ بالا آیت میں زکوۃ دینے کی تاکید حضرت
عیسی علیہ السلام کے ذریعے آپ کی امت کو ہے، یعنی اللہ تعالی نے مجھے تاکید فرمائی
کہ اپنی امت کو مال کی زکوۃ دینے کا حکم دوں۔
عاجزی
و انکساری: آپ علیہ السلام تکبیر
سے دور اور عاجزی و انکساری کے پیکر تھے ، جس کی گواہی خود رب کریم نے قرآن مجید
میں بھی دی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ
اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ
یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ
جَمِیْعًاِ ترجمہ کنز العرفان ۔نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو
اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا(پ6.النساء172)
خود عجز و
انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، چنانچہ
ایک بار آپ علیہ السلام نے حواریوں سے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں افضل عبادت
کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ انہوں نے عرض کی : اے روح الله علیہ السلام، افضل عبادت
کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرنا۔
حواریوں
کی تربیت
: آپ علیہ السلام اپنے حواریوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام
فرماتے اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں نصیحت کرتے رہتے تھے ، چنانچہ ایک بار آپ
علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام
نہ کیا کرو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور جس کا دل سخت ہو وہ اللہ تعالی سے
دور ہو جاتا ہے اور اسے اس کا علم تک نہیں ہوتا اور تم لوگوں کے گناہوں کو ایسے مت
دیکھو جیسے تم آقا ہو اور اپنے گناہ یوں دیکھو گویا کہ تم غلام ہو۔ لوگ دو طرح کے
ہیں (1) عافیت والے۔ (2) مصیبت میں مبتلا۔ اس مصیبت زدوں پر ان کی مصیبت کے وقت
رحم کرو اور عافیت والوں کو دیکھ کر اللہ تعالی کی حمد کرو۔( سيرت الانبياء)
زہد
و قناعت: حضرت عیسی علیہ السلام
خود بھی دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت تھے ، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ
لاتے، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے ایک ہی اونی جبہ میں اپنی زندگی کے اس سال
گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے باریک رتی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا
لیتے۔
حضرت حسن بصری
رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے دنیا کو
منہ کے بل گرایا اور اس کی پشت پر سوار ہوا، میرا نہ کوئی بیٹا ہے جس کے مرنے کا
مجھے غم ہو اور نہ گھر ہے جس کی بربادی کا خوف ہو۔ لوگوں نے عرض کی : کیا ہم آپ کے
لیے گھر نہ بنادیں ؟ ارشاد فرمایا: سر راہ گھر بنادو۔ عرض کی گئی: وہاں تو یہ قائم نہ رہے
گا، لوگوں نے پھر عرض کی : کیا ہم آپ کیلئے زوجہ کا انتظام نہ کر دیں ؟ فرمایا:
میں ایسی بیوی کا کیا کروں گا جو مر جائے گی۔( سيرت الانبياء)
حضرت عبید بن
عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صبح کے کھانے سے رات اور رات کے
کھانے سے صبح کے لیے کچھ نہ بچاتے اور ارشاد فرماتے : ہر دن کا رزق اس کے ساتھ
ہوتا ہے۔ آپ بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے، درختوں پر لگے ہوئے پھل پتے وغیر ہو کھا
لیتے اور جہاں رات ہو جاتی وہیں آرام فرما لیتے تھے۔ (سيرت الانبياء )
آپکی نصیحت امیز گفتگو:(1) احسان یہ نہیں
کہ تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ کیا کیونکہ یہ تو اچھے سلوک کے بدلے
میں اچھا سلوک کرنا ہے ، ہاں احسان یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے جس
نے تیرے ساتھ بر اسلوک کیا۔
(2) جس کا جھوٹ زیادہ ہو گا اس کا حسن و جمال چلا
جائے گا، جو لوگوں کے سامنے گڑ گڑائے گا اس کی عزت و مقام ختم ہو جائے گا، جو
زیادہ پریشان رہے گا اس کا جسم بیمار پڑ جائے گا اور جس کے اخلاق برے ہوں گے وہ
اپنی جان کو تکلیف میں ڈالے گا۔
(3) عمدہ لباس دل کے تکبر کی علامت ہے۔ (یعنی علامت
ہو سکتی ہے۔ )
(4) جنت کی محبت اور جہنم کا خوف، مصیبت پر صبر کرنے
کی تلقین کرتا ہے اور بندے کو دنیوی لذات، نفسانی
خواہشات اور
گناہوں سے دور کرتا ہے۔
(5) اپنی نظر کی حفاظت کرو، کیونکہ یہ دل میں شہوت
کا بیج ہوتی ہے اور فتنہ کے لئے یہی کافی ہے۔
(6) ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو جنہیں دیکھنا تمہیں
اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے ، جن کا کلام تمہارے نیک اعمال
میں اضافہ کرے
اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی جانب راغب کر دے۔
(7) تم دنیا کو آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تمہیں اپنا غلام
بنالے گی، اپنا خزانہ اس کے پاس جمع کروا دو جو اسے ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ
دنیوی خزانے والے کو اپنے مال پر آفت و مصیبت آنے کا ڈر رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ
کے پاس خزانہ جمع کروانے والا اس پر آفت آنے سے بے خوف ہو جاتا ہے۔
(8) گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے اور عور تیں
شیطان کی رسیاں ہیں (جن کے ذریعے وہ نفسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کا شکار کرتا
ہے) اور شراب ہر شر و فساد کی چابی ہے۔ ( (سيرت الانبياء)
(9) وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی
آخرت کی جانب رواں دواں ہے (یعنی موت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے) لیکن اس کی توجہ
اپنی دنیا کے راستے پر ہے۔ وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو صرف معلومات کے
لیے علم
حاصل کرے نہ
کہ اس پر عمل کرنے کے لیے ۔ ( (سيرت الانبياء ص810)
اللہ پاک ہمیں
تمام انبیاء کرام علیھم السلام کا صدقہ نیک اور صالح بنائے اور ان پر لیے گئے
انعامات میں سے ہمیں بھی اپنی رحمت کے ساتھ حصہ عطا فرمائے آمین