محمد شاہ زیب سلیم عطاری (درجۂ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انبیائے کرام
علیہم الصلوۃ والسلام کا تذکرہ ، ان کے احوال واقعات کا بیان قرآن مجید فرقان حمید
کا اہم ترین حصہ ہے۔ اللہ عز و جل نے اپنے حبیب لبیب کو بھی انبیائے کرام علیہ
اسلام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو جائے اور یہ ذکر سن کر لوگ ان نفوس قدسیہ کی پاک خصلتوں
سے نیکیوں کا ذوق وشوق حاصل کریں۔ قرآن کریم میں انبیائے کرام علیہم السلام کے
تصرف و اختیار اور معجزات و کمالات کا بیان ہے جس سے کفار کے باطل نظریات کار د
ہوتا ہے نیز ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بے مثل بحر میں ان کی طاقت
و قدرت اور شان و عظمت عام انسانوں سے کہیں بلند و بالا ہے۔ اور ان انبیاء کرام علیہم
السلام میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ اللہ عزوجل نے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے
(1)
بندگی کرنا :اللہ عزوجل قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے :وَ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌترجمہ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ
رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔
وَ إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس آیت میں
مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَيْہ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَيْهِ
الصَّلُوةُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارا رب ہے،
اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو
احکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر
جاتا ہے۔(پاره 16 سورت مریم آیت 36 تفسير صراط الجنان )
2)سیدھی
راہ:اللہ عزوجل قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے :وَ
لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ
لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ
مُّسْتَقِیْمٌ
ترجمۂ کنز
الایمان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا
اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ
سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی
راہ ہے۔(پارہ 25 سورت الزخرف آیت 63 64 )
3)اللہ
عزوجل سے ڈرو :اِذْ
قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ
یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز
الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر
آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
بعض مفسرین نے
کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ
سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو
تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔(پارہ 7 سورت المائدہ آیت
112 تفسیر صراط الجنان )
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی نصیحت اور توریت کی تصدیق :اَنِّیْ قَدْ
جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۔ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ
كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ
اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ
بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ
لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ. وَ مُصَدِّقًا لِّمَا
بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ
عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
ترجمہ کنزالایمان
:میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے
پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے
اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں
مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے
گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان
رکھتے ہو۔اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی اور اس لئے کہ حلال
کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی
طرف سے نشانی لایا ہوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پارہ 3 سورت آل عمران
آیت 49 تا 50)
اللہ
عزوجل کو پوجو :اللہ عزوجل قرآن کریم
میں ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا
صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز
الایمان:بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔
{اِنَّ
اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ: بیشک
اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا
یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے
کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ میں اتنی قدرتوں اور
علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء واولیاء
کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب
مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔(پارہ 3 سورت آل
عمران آیت 51 تفسیر صراط الجنان)