حضرت عیسی علیہ السَّلام:آپ عَلَيْهِ السَّلام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے، برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔ آپ عَلَيْهِ السَّلام کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے ، آپ عَلَيْهِ السَّلام حضرت مریم رضی الله عنها سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ، ہمارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت پر عمل کریں گے ، صلیب توڑیں اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے ، چالیس سال تک زمین پر قیام فرمائیں گے ، پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔

نام و نسب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسی “ اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے جاملتا ہے۔

کنیت و لقب :آپ علیہ السلام کی کنیت " ابن مریم“ ہے اور تین القاب یہ ہیں۔ (1) مسیح۔ (2)كلمۃ الله (3) روح الله

نماز و زکوة:نماز و زکوۃ سے متعلق آپ علیہ السلام نے شیر خوارگی کی عمر ہی میں لوگوں سے فرمادیا تھا کہ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا ترجمہ کنز العرفان: اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں 16.مریم31)

اور رہی مال کی زکوٰۃ تو یہ حضرت عیسی علیہ السلام پر فرض نہ تھی کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیهم السلام پر زکوۃ فرض نہیں اور مذکورہ بالا آیت میں زکوۃ دینے کی تاکید حضرت عیسی علیہ السلام کے ذریعے آپ کی امت کو ہے، یعنی اللہ تعالی نے مجھے تاکید فرمائی کہ اپنی امت کو مال کی زکوۃ دینے کا حکم دوں۔

عاجزی و انکساری: آپ علیہ السلام تکبیر سے دور اور عاجزی و انکساری کے پیکر تھے ، جس کی گواہی خود رب کریم نے قرآن مجید میں بھی دی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًاِ ترجمہ کنز العرفان ۔نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا6.النساء172)

خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، چنانچہ ایک بار آپ علیہ السلام نے حواریوں سے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں افضل عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ انہوں نے عرض کی : اے روح الله علیہ السلام، افضل عبادت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرنا۔

حواریوں کی تربیت : آپ علیہ السلام اپنے حواریوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرماتے اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں نصیحت کرتے رہتے تھے ، چنانچہ ایک بار آپ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور جس کا دل سخت ہو وہ اللہ تعالی سے دور ہو جاتا ہے اور اسے اس کا علم تک نہیں ہوتا اور تم لوگوں کے گناہوں کو ایسے مت دیکھو جیسے تم آقا ہو اور اپنے گناہ یوں دیکھو گویا کہ تم غلام ہو۔ لوگ دو طرح کے ہیں (1) عافیت والے۔ (2) مصیبت میں مبتلا۔ اس مصیبت زدوں پر ان کی مصیبت کے وقت رحم کرو اور عافیت والوں کو دیکھ کر اللہ تعالی کی حمد کرو۔( سيرت الانبياء)

زہد و قناعت: حضرت عیسی علیہ السلام خود بھی دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت تھے ، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ لاتے، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے ایک ہی اونی جبہ میں اپنی زندگی کے اس سال گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے باریک رتی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا لیتے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے دنیا کو منہ کے بل گرایا اور اس کی پشت پر سوار ہوا، میرا نہ کوئی بیٹا ہے جس کے مرنے کا مجھے غم ہو اور نہ گھر ہے جس کی بربادی کا خوف ہو۔ لوگوں نے عرض کی : کیا ہم آپ کے لیے گھر نہ بنادیں ؟ ارشاد فرمایا: سر راہ گھر بنادو۔ عرض کی گئی: وہاں تو یہ قائم نہ رہے گا، لوگوں نے پھر عرض کی : کیا ہم آپ کیلئے زوجہ کا انتظام نہ کر دیں ؟ فرمایا: میں ایسی بیوی کا کیا کروں گا جو مر جائے گی۔( سيرت الانبياء)

حضرت عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صبح کے کھانے سے رات اور رات کے کھانے سے صبح کے لیے کچھ نہ بچاتے اور ارشاد فرماتے : ہر دن کا رزق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے، درختوں پر لگے ہوئے پھل پتے وغیر ہو کھا لیتے اور جہاں رات ہو جاتی وہیں آرام فرما لیتے تھے۔ (سيرت الانبياء )

آپکی نصیحت امیز گفتگو:(1) احسان یہ نہیں کہ تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ کیا کیونکہ یہ تو اچھے سلوک کے بدلے میں اچھا سلوک کرنا ہے ، ہاں احسان یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ بر اسلوک کیا۔

(2) جس کا جھوٹ زیادہ ہو گا اس کا حسن و جمال چلا جائے گا، جو لوگوں کے سامنے گڑ گڑائے گا اس کی عزت و مقام ختم ہو جائے گا، جو زیادہ پریشان رہے گا اس کا جسم بیمار پڑ جائے گا اور جس کے اخلاق برے ہوں گے وہ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالے گا۔

(3) عمدہ لباس دل کے تکبر کی علامت ہے۔ (یعنی علامت ہو سکتی ہے۔ )

(4) جنت کی محبت اور جہنم کا خوف، مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے اور بندے کو دنیوی لذات، نفسانی

خواہشات اور گناہوں سے دور کرتا ہے۔

(5) اپنی نظر کی حفاظت کرو، کیونکہ یہ دل میں شہوت کا بیج ہوتی ہے اور فتنہ کے لئے یہی کافی ہے۔

(6) ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو جنہیں دیکھنا تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے ، جن کا کلام تمہارے نیک اعمال

میں اضافہ کرے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی جانب راغب کر دے۔

(7) تم دنیا کو آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تمہیں اپنا غلام بنالے گی، اپنا خزانہ اس کے پاس جمع کروا دو جو اسے ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ دنیوی خزانے والے کو اپنے مال پر آفت و مصیبت آنے کا ڈر رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس خزانہ جمع کروانے والا اس پر آفت آنے سے بے خوف ہو جاتا ہے۔

(8) گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے اور عور تیں شیطان کی رسیاں ہیں (جن کے ذریعے وہ نفسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کا شکار کرتا ہے) اور شراب ہر شر و فساد کی چابی ہے۔ ( (سيرت الانبياء)

(9) وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی آخرت کی جانب رواں دواں ہے (یعنی موت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے) لیکن اس کی توجہ اپنی دنیا کے راستے پر ہے۔ وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو صرف معلومات کے لیے علم

حاصل کرے نہ کہ اس پر عمل کرنے کے لیے ۔ ( (سيرت الانبياء ص810)

اللہ پاک ہمیں تمام انبیاء کرام علیھم السلام کا صدقہ نیک اور صالح بنائے اور ان پر لیے گئے انعامات میں سے ہمیں بھی اپنی رحمت کے ساتھ حصہ عطا فرمائے آمین