نصیحت کا عام معنی خیر خواہی ہے خواہ قول کی صورت میں ہو یا عمل کی صورت میں وعظ ، اسی قولی نصیحت کی ایک صورت ہے جس سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کو پسندیدہ چین کی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ، اچھے عمل کی طرف راغب کرے اور برے عمل کے انجام سے ڈرائے۔ جسمانی صحت کی خرابی میں جیسے دوا کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی طرح دینی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زندگی کی خرابی سے نجات یا حفاظت کے لئے نصیحت کی حاجت ہوتی ہے۔ نصیحت کی تاثیر کے لئے ناصح (یعنی جس کو نصیت کی جائے) کے دل میں شفقت اور ہمدردی کا ہونا ضروری ہے پھر نصیحت کی نوعیت فایدہ دے گی ۔ اب آئیے سب سے پہلے حضرت عیسی کا مختصر تعارف بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عیسی کا نسب حضرت داود علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ آپکی کنیت ابن مریم اور مسیح، کلمة اللہ اور روح الله ہیں۔ آپ علیہ سلام کا رنگ سرخ ، بال گھنگھرالے تھے اور آپ کا سینہ چوڑا تھا۔ (سیرت الانبیاء 1793-14)

اب قرآن پاک کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں جو آپ نے نے اپنی قوم کو کی :

سیدھا راستہ : اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔( سورہ ال عمران ، آیت نمبر 51)

اللہ تعالیٰ سے ڈرو: قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔ ( سورہ مائدہ آیت نمبر 112)

اس میں ہمارے لیے نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ ہم وتعالی کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ایمان جیسی دولت سے مالا مال فرمایا ۔ دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں نصحیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔