کاشف علی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
آج ہم ان شاءاللہ
حضرت عیسی علیہ اسلام کی نصحتوں کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے لیکن اس سے
پہلے ہم ان کے متعلق کچھ جانتے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام جو ہے یہ اللہ
تعالیٰ کے مقبول بندے، برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔
آپ عَلَيْهِ السلام کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے، آپ علیہ السلام
حضرت مریم رضی اللہ عنھا سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا
کر بھیجے گئے ، یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ
کو ان کے شر سے بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین
پر تشریف لائیں گے ، ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله عَلَيْهِ وَالِهِ وسلم کی
شریعت پر عمل کریں گے ، صلیب توڑیں اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے ، چالیس سال
تک زمین پر قیام فرمائیں گے ، پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی الله
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کا
مختصر تذکرہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جبکہ تفصیلی ذکر خیر درج ذیل 6 مقامات پہ
کیا گیا ہے۔
سورتوں میں
سے(1) سورۃ آل عمران، آیت : 45 تا 57
(2)سورہ مائدہ
آیت(72تا75 اور 110تا 119)
(3)سورۂ نساء، آیت(156تا159 اور 171 تا 172)
(4) سورۂ مریم،
آیت : 16 تا 38
(5) سوره
زخرف، آیت : 63 تا 66
(6) سورۂ تحریم،
آیت : 12
ان مقامات پہ
آپ کا تفصیلی ذکر خیر موجود ہے اب ہم پڑتے ہے وہ آیتیں جن میں آپ نے اپنی قوم کو
نصیحت کی اور قرآن پاک میں اللہ پاک نے اسے بیان فرما دیا چنانچہ اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ
اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ
مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا
بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى
بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ
بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
ترجمہ
کنزالعرفان: اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف
سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک
شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے
گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے
حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور
جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم
ایمان رکھتے ہو۔(پارہ3، سورہ ال عمران،آیت نمبر 49)
اس آیت سے پتہ
چلا کہ آپ لوگوں کو یہ نصیحت فرما رہے ہے کے اے لوگوں میں اللہ کا نبی علیہ السلام
ہوں مجھے اللہ پاک نے معجزات عطاء فرمائے ہے میں اندھوں کو بنائی دیتا ہو ، میں
پرندوں کی سی شکل مٹی سے بناتا ہو اور پھر میں اس کو اللہ کے حکم سے پھونک مارتا ہو تو وہ زندہ ہو جاتا ہے اور
جو تم کھاتے ہوں اور گھر رکھ کے آئے ہوں میں ان سب کو جانتا ہوں اور اگر میں کوڑی لوگوں کے جسم پہ ہاتھ پھیروں
تو وہ صحیح ہو جاتے ہے اسی طرح آپ عاجزی و
انکساری اپنانے والے تھے اور اس کی نصیحت بھی آپ اپنے لوگوں کو کرتے تھے آپ کی اس
نصیحت کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن پاک کے ایک دوسرے مقام پہ اس طرح ارشاد فرمایا:
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ
عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ
عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(172) ترجمہ
کنزالعرفان: نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور
جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
(پارہ 6،سورہ النساء، آیت نمبر 172)
آپ علیہ
السلام خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا
کرتے تھے ، چنانچہ ایک بار آپ علَيْهِ السلام نے حواریوں سے فرمایا: کیا بات ہے کہ
میں تمہیں افضل عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ انہوں نے عرض کی: اے روح الله
عَلَيْهِ السلام ، افضل عبادت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار
کرنا۔ ( الزهد لاحمد ، من مواعظ عيسى عليه
السلام، ص 95، رقم : 312)