ابو کفیل محمد جمیل عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
حضرت عیسیٰ علیہ
السلام نے اپنی امت کی اصلاح کی بھرپور کوشش فرمائی ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا اور سیدھی
راہ کی نصحتیں بھی فرمائی آئے آپ کی کچھ نصیحتیں پڑھتے ہیں
1 جب
اللہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تو
آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِايَةٍ مِنْ رَّبِّكُمُ
انّي اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الدِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَانْفُخُ فِيهِ
فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ
وَأَحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ
فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ في ذلِكَ لَا يَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ وَ مُصَدِّقًا
لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي
حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِايَةِ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
إِنَّ الله رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ
ترجمہ کنزالایمان : کہ میں تمہارے رب کی
طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ، وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی
ایک شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فورا پرندہ بن
جائے گی اور میں پیدا ئشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں
اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم
کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی
نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور مجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق
کرنے والا بن کر آیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم
پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں
تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بیشک اللہ میرا اور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی
کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے (پارہ
3،ال عمران: 49-51)
2 ایک
اور موقع پر آپ نے بنی اسرائیل کو یوں نصحیت فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلا
بَيْنَ لَكُمُ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ
فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ
فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمُ ترجمہ: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں) تاکہ
میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور
میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت
کرو، یہ سیدھا راستہ ہے ۔ (پارہ 25،سورہ
زخرف : آیۃ نمبر 63,64)
3۔ ایک
بار حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کی : يعِيسَى ابْنَ
مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِّنَ
السَّمَاءِترجمہ : اے عیسیٰ بن مریم!
کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان
سے ایک دستر خوان اُتار دے؟ (پارہ 7 ،المائدۃ ،112)
اس سے ان کی
مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں
تھی کہ کیا آپ کا رب عزوجل ایسا کر سکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ
کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اتَّقُوا
اللَّهَ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ (4) ترجمہ: اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔ (پارہ
7 ،المائدۃ ،112)
یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو
اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض
مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہے کہ تمام امتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ سے
ڈرو یا یہ معنی ہے کہ جب اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ
کرو جس سے تردد کا شبہ گزر سکتا ہو۔ (خازن ،المائدۃ ،تحت آیۃ ،112،جلد 1 ،صفحہ 539 )
4 حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سیدھی راہ کی کچھ اس طرح نصیحت فرمائی : وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ
فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:
اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی
ہے۔
تفسیر صراط الجنان:
{وَ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور
بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت
میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے
سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو
جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 36، 3 / 235)
5۔ عیسیٰ
علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفر پر ان کو یوں نصیحت آموز بات ارشاد فرمائی : فَلَمَّاۤ
اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ
الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا
مُسْلِمُوْنَ (52)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا
الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(53) ترجمۂ کنز الایمان:
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حَواریوں
نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ
ہم مسلمان ہیں۔ اے رب ہمارے ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع
ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
تفسیر صراط الجنان:
{فَلَمَّاۤ
اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ:
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔} یعنی جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان
پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین کو منسوخ کریں گے، تو جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نصحیت فرماتے ہوئے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر
بہت شاق گزرا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایذا اورقتل کے درپے
ہوئے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا۔ آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف
ہوکر میرا مددگار بنے۔ اس پر حواریوں نے
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کا وعدہ کیا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت
الآیۃ: 52، 1 / 253)
حواری وہ مخلصین
ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ
پر اوّل ایمان لائے، یہ بارہ اَشخاص تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ
عَزَّوَجَلَّ کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان
لائے اور پھر کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے مسلمان ہونے پر
گواہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم
ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین اسلام تھا ، یہودیت
و نصرانیت نہیں۔ اسی لئے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا، عیسائی نہیں۔