جب سے اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ تب سے ہی انسانوں کو تہذیب و سلیقہ مندی ، معاشرتی و مذہبی امور میں کامیاب و کامران  کرنے، انھیں اپنی عقل و فطرۃ کو اللہ پاک کے احکامات کے تابع کرنے اور اپنی زندگیوں کو اپنی خواہشات نہیں بلکہ خدائے رحمن کی اطاعت میں گزارنے اور اس کی بندگی کرنے کے لیے، انبیاء کرام اور صالحین کے ارشادات اور ان کی نصیحتوں کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی۔ہر نبی علیہ السلام نے اپنی اپنی امتوں میں لوگوں کو معاشرے میں موجود برائیوں سے منع کیا اور انھیں اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے راستے بیان کیے۔ یہ طریقۂ وعظ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور تا قیامت علماء و صلحاء کے ذریعے جاری رہے گا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ نصحیتیں بھی آتی ہیں کہ جو انھوں نے اپنی قوم سے کیں۔

پہلے نصیحت کے بارے میں جانتے ہیں کہ نصیحت کسے کہتے ہیں۔

نصیحت: نصیحت عربی زبان کا لفظ ہے۔اور اس کے معنی ہمدردانہ بات کرنا اور خیرخواہی پر مشتمل مشورہ دینے کے ہیں کہ جس مشورے میں نیکی کی ترغیب اور گناہ سے اجتناب کرنے کا ذہن ہو (القاموس الوحید ص، 1655)

حضرت عیسی علیہ السلام کی نصیحتوں کو قرآن عظیم نے بہت ہی نفیس انداز میں لوگوں کی بھلائی اور انھیں برائیوں سے بچنے کے لیے بیان فرمایا۔ان میں سے پانچ نصیحتیں درج ذیل ہیں:

1-اللہ پاک کے رب ہونے کی گواہی اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی تلقین:جب حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو واضح معجزات دکھا دئیے اور وہ حکمت و معرفت کی باتیں ان کے سامنے بیان کر دی کہ جس میں ان کی ہمیشہ کی زندگی کے لیے کامیابی کا راز موجود تھا اور ان کے سامنے وہ باتیں بھی بیان کر دیں کہ جس میں وہ پہلے اختلاف کرتے رہے تو پھر فرمایا اے میری قوم اللہ سے ڈرو اور جو میں کہتا ہوں اس کی اطاعت کرو۔ بے شک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔جب وہ ہمارا معبود ہے، خدا ہے اور وہ عبادت کے لائق ہے تو اسی کی عبادت کرو۔اور یہی سیدھا راستہ ہے کہ جس پر چل کر تم کامیاب ہو سکو گے۔

اس ساری بات کو قرآن پاک کی سورۃ زخرف کی آیت نمبر 64 سے 65 میں نہآیت پُر لطف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64)ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

2- بنی اسرائیل کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشخبری سنانا:حضرت عیسی علیہ السلام چونکہ بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کے سامنے ان تمام باتوں کو بیان کردیا کہ جس میں لوگ شک و شبہات میں تھے۔ آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔اور اس مقام پر فائز ہوں کہ تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔اور سب سے بڑھ کر تمھیں ایک ایسے نبی کی آمد کا مژدہ اور خوشخبری سناتا ہوں کہ جو میرے بعد تشریف لائیں گے۔اور اپنی ذات کی نورانیت سے کفر کے اندھیروں کو دور کریں گے۔جان لو کہ وہ نبی جو میرے بعد آئیں گے انکا نامِ پاک "احمد" ہوگا.

اس ساری گفتگو کو قرآن پاک میں کس طرح بیان کیا گیا آئیے دیکھتے ہیں۔

اللہ پاک سورۃ الصف کی آیت نمبر 6 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے۔

3- دینِ خداوندی کی مدد کرنے کی تلقین:حضرت عیسی علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے سامنے حق بات بیان فرما دی اور ان کے سامنے واضح معجزات اور نشانیاں دکھا دیں۔ تو اب ان لوگوں کے پاس کوئی عذر باقی نا بچا۔ ان یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو جان لیا اور انھوں نے یہ سمجھا کہ اگر سب لوگوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ علیہ السلام اللہ پاک کی جانب سے سچے نبی ہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کی حقانیت ہمارے دین کو یعنی یہودیت کو منسوخ کردے گی۔ پس یہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور معاذ اللہ آپ کو شہید کرنے کے در پہ ہوگئے۔

اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ کون ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اللہ کے دین کی مدد کرنے اور اللہ کے نبی کی مدد و نصرت کے لیے اپنے آپ کو قائم رکھے گا۔ یہ اس وقت تو بظاہر ایک مشکل کام تھا کہ ان سب یہودیوں کے مقابل دینِ برحق کے ساتھ کھڑے رہنا اور اللہ کے نبی کی حفاظت کرنا مگر اس وقت مخلص حواریوں نے برملا عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم اللہ کے دین کے مدد گار ہیں اور ہم اخلاص و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔تو اللہ پاک نے ان کفار کے مکر کرنے اور حضرت عیسی کو شہید کرنے کے در پے ہونے پر اپنی خفیہ تدبیر سے انھیں ان کے اس کام کو کرنے پر درد ناک عذاب کی خبر سنائی۔ جبکہ ثابت قدم ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری سنائی جبکہ کفار کو دنیا میں ذلیل و رسوا کردیا اور کل بروز قیامت وہ سرمدی عذاب میں رہیں گے۔

اس پُر ایمان واقعہ کو قرآن پاک کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 52 سے 58 تک بیان فرمایا گیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(52)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(53)وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(54)اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(55)فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(56)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(57)ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ(58)

ترجمہ کنزالایمان: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حَواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے رب ہمارے ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پَیرووں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔تو وہ جو کافر ہوئے میں انہیں دنیاو آخرت میں سخت عذاب کروں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ ان کا نیگ انہیں بھرپور دے گا اور ظالم اللہ کو نہیں بھاتے۔ یہ ہم تم پرپڑھتے ہیں کچھ آیتیں اور حکمت والی نصیحت۔

4- حضرت عیسی علیہ السلام کا چھوٹی عمر میں اپنی قوم کو نصیحت کرنا:

جب اللہ پاک کے چاہنے سے بغیر باپ کے بطور نشانی حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو بنی اسرائیل کے لوگوں نے آپ کی والدہ ماجدہ پر معاذاللہ زنا کی تہمت لگائی۔ تو آپ رضی اللہ عنہا نے بچے کی طرف یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ بچہ کیسے کلام کرے گا؟؟۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جو رب بغیر باپ کے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ایک بچے کو کہ جو ابھی جھولے میں ہے،بولنے کی طاقت عطا فرمائے۔ پھر ہوا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان لوگوں سے کلام کیا اور فرمایا کہ بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبوت سے سرفراز فرمایا ہے۔ مجھے بابرکت بنایا ہے اور مجھے اس بات کی وصیت فرمائی ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نماز ادا کروں، زکوۃ دوں۔

اور مجھے اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور بدبخت نہیں بنایا۔ اس سارے واقعے کو اللہ پاک نے سورۃ مریم کی آیت نمبر 29، 30، 31، 32، میں یوں بیان فرمایا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَاَشَارَتْ اِلَیْهِؕ-قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا(29)قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(30)وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(31)وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(32)

ترجمہ کنزالایمان : اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے۔بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں ۔اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا۔

آپ علیہ السلام کا اپنے بارے میں یہ سب کچھ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی تھے اور نبی کی ماں کبھی ایسا برا کام نہیں کرسکتی۔لھذا آپ کے والدہ اس تھمت سے بری تھیں جو یھودیوں نے ان پر لگائی۔

5- دین پر قائم رہنے کی وصیت :حضرات انبیاء کرام خواہ وہ اول نبی حضرت آدم ہوں یا آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں، ہر ایک نے اپنی قوم کو کفر و شرک سے باز رہنے اور دین پر عمل کرنے کا حکم دیا۔اسی طرح دین کی راہ سے ہٹ کر فرقے بنانے کی مزمت بیان کی۔اب جو صاحبِ ایمان ہوتے وہ تو ان نصیحتوں کو دل و جان سے تسلیم کرتے اور مرتے دم تک ان پر کار بند رہتے۔لیکن ہر دور میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوئے مشرکین وغیرہ کہ جنھوں نے کھل کر حق کی مخالفت کی اور ان نصیحت و حکمت والی باتوں کو پس مشت ڈال دیا اور ان کے مطابق عمل نا کیا تو انکا انجام بھی برا ہوا۔

سورۃ شوری آیت نمبر 13 میں بطور خاص جن انبیاء کرام کو ذکر کیا اور ان کا اپنی قوم کو نصیحت کرنے کو بیان کیا ان میں حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ذکر ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ-كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِؕ-اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)

ترجمہ کنزالایمان: تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ جس کی طرف تم اُنھیں بلاتے ہو اور اللہ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اُسے جو رجوع لائے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمیں وہ حکمت والی باتیں جو قرآن و حدیث میں بیان کی گئی۔ خواہ وہ انبیاء کرام کے بارے میں ہوں یا صالحین کے بارے میں اور ایسے ہی بزرگان دین کے اپنے قوال زریں، ان میں غور فکر کر کے انھیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔