طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم  یعنی، علمِ دین سیکھنا ہر مسلمان مرد(و عورت) پر فرض ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ج ١، ص ٤١)

اس حدیث بالا کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمن نے جو کچھ فرمایا اس کا آسان لفظوں میں مختصر خلاصہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سب سے اولین میں واہم ترین فرض یہ ہے، کہ بنیادی عقائد کا علم حاصل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ و سنی بنتا ہے اور جن کے انکار و مخالفت سے کافر یا گمراہ ہوجاتا ہے۔
مثلا
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، رسالت و نبوت ، ملائکہ و جن ، قبر و حشر، دوزخ و جنت اور تقدیر وغیرہ کاعلم جن مسائل کا سیکھنا ضروری ہے۔ پھر اس کے جو مسائل نماز یعنی اس کے فرائض و شرائط و مفسدات (یعنی نماز توڑنے والی چیزیں سیکھنا تاکہ نماز صحیح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان المبارک کی تشریف آوری ہو تو روزوں کے مسائل سیکھنا کہ کن چیزوں سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے،
مالک نصاب نامی (یعنی حقیقۃً یا حکماً بڑھنے والے نصاب کا مالک) ہوجائے تو زکاۃ کے مسائل سیکھنا ، صاحب استطاعت ہو تو حج کے مسائل سیکھنا ، نکاح کرنا چاہیں تو اس کے ضروری مسائل سیکھنا، تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل مزارع یعنی کاشت کار(زمیندار) کھیتی باڑی کے مسائل، ملازم بننے اور ملازم رکھنے والے پر اجارہ کے مسائل کا سیکھنا فرض عین ہے۔
وعلیٰ ھذا القیاس۔
ہر مسلمان عاقل و بالغ، مرد و عورت پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سیکھنا فرض عین ہے۔

پھر جن علوم کا سیکھنا فرض ہے :

اس طرح ہر ایک کے لیے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے، نیز مسائلِ قلب (باطنی مسائل) یعنی قلبیہ ( باطنی فرائض) مثلا عاجزی و اخلاص ، توکل وغیرہ اور ان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور باطنی گناہ مثلا تکبر، ریا کاری حسد وغیرہ ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج :٢٣ ص ٦٢٣)

شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو، افسوس آج کل صرف و صرف دنیاوی علوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا ر جحان ہے ، علمِ دین کی طرف بہت ہی کم میلان ہے۔(شوق علمِ دین ۔ ص ٨)

حدیث : حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صاحبِ لولاک سیاح افلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ترجمہ :یعنی علم کا حاصل کرنا، ہر مسلمان مرد (و عورت ) پر فرض ہے۔ (شعب الایمان ، باب فی طلب العلم، حدیث ١٦٦٥، ج٢، ص ع ٢٥)

یہاں علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہذا روزے اور نماز کے وغیرہ کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ، حیض و نفاس کے مسائل سیکھنا ہر عورت پر، تجارت کے مسائل سیکھنا ہر تاجر پر ، حج کے مسائل سیکھنا حج کرنے والے پر عین فرض ہے ، لیکن دین کا پورا عالم بننا فرضِ کفایہ اگر شہر میں ایک نے ادا کردیا تو سب بری ہوگئے (ماخوذ از مراۃ المناجیح، ج١، ص ٢٠٢)

فرض عین سے مراد: ہر مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور حر ام چیزوں سے بچ جائے اسلام کی بنیادی و ضروری باتیں معلوم کرے۔

موت کو یاد کرنے کے فوائد: فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کرو

حدیث مبارکہ :

حضرت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جو شخص موت کی پہچان کرلیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں۔ موت کو زیادہ یاد کرنا ہر مسلمان کے لئے کفارہ ہے، موت کو زیادہ یاد کرنے سے یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کردیتی ہے ،دل کی سختی دور ہوتی ہے ،دل نرم رہتا ہے، خوفِ الہی پیدا ہوتا ہے، اس کے اعمال اور احوال اچھے ہوتے ہیں اور وہ گناہ کرنے سے باز رہتا ہے موت کی یاد حصول تقویٰ کا ذریعہ بھی ہے۔

حدیث مبارکہ:

فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے موت کو یاد کرو ، اس لیے کہ وہ یعنی موت کو یاد کر نا گناہوں کو دور کرتا ہے۔ اور دنیائے مذموم اور غیر مطلوب ، فضول سے بیزار کرتا ہے یعنی جب انسان موت کو بکثرت یاد کرے گا تو دنیا میں جی نہ لگے اور طبیعت دنیا کے سامان سے اور زاہد ہوں عبرت کی جائے گی اور آخرت کی تباہی اور وہاں کے عذاب دردناک کا خوف ہوگا آخرت کی طلب اور وہاں کی نعمتوں کی خواہش ہوگی، پس ضرور وہ نیک اعمال میں ترقی کرے گا اور گناہوں سے بچے گا تمام نیکیوں کی جڑ زہد ہے ۔یعنی دنیا سے بیزار ہونا تو موت کی یاد دنیا سے بیزار کردے گی، اگر تم فقر و تنگی کی حالت میں موت کو یاد کرو گے تو وہ یاد کرنا تم کو راضی کردے گا یعنی جو کچھ تمہاری تھوڑی سی معاش ہے تم اس سے راضی ہوجا ؤ گے۔ موت کا وعظ ہونا کافی ہے۔

حدیث مبارکہ: جو ٢٠ بار روزانہ موت کو یاد کرے تو وہ شہادت پائے گا۔

یعنی جب غنی آدمی موت کا دھیان کرے گا تو اس فنا کی اس کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رہے گی۔(بہشتی گوہر)

امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں : موت کو یاد کرنے کے فائدے اس طریقے سے پہنچ سکتے ہیں کہ موت کو اپنے سامنے سمجھتے ہوئے یاد کرے اور اس کے علاوہ و ہ ہر چیز کو اپنے دل سے نکال دے ۔ جیسے کوئی شخص خطرناک جنگل میں سفر کا ارادہ کرے یا سمندری سفر کا ارادہ کرے تو بس اس کے بارے میں غور و فکر رہتا ہے لہذا جب موت کی یاد کا تعلق دل سے براہ راست ہوگا تو اس کا اثر بھی ہوگا اور علامت یہ ہوگی کہ دنیا سے اتنا ٹوٹ چکا ہوگا کہ دنیا کی ہر خوشی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
موت کی یاد آخرت کی تیاری میں بہت معاون ہے، موت کی یاد سے گناہوں سے نفرت تصور ہونے لگتی ہے اور نیکیوں سے محبت تصور ہونے لگتی ہے۔

موت کی یاد فکر آخرت پیدا کرنے دنیاوی لذتوں کو ختم کرنے یا کم کرنے کے لیے کافی ہے۔ امام صادق علیہ الرحمہ موت کو یاد کرنے کے فوائد کے بار ے میں فرماتے ہیں: موت تحقیق الدنیا یاد نفسانی خواہشات کو ختم کردیتی ہے، اور دل کو اللہ کے وعدے کے ذریعے طاقت بخشتی ہے، اور انسان کے مزاج کو نرم کرتی ہے اور بری وہوس کو توڑ دیتی ہے، اور حرص کی آگ کو بجھا دیتی ہے، اور دنیا کو اس کی نظر میں حقیر دکھاتی ہے۔ (بحار الانوار ، ج ع ، ص ١٣٢)

اس حدیث میں واضح کردیا گیا کہ انسان صرف موت کو یاد کرلیں تو اسے دنیا و آخرت دونوں میں سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔(علامہ مجلس داد ، احیا الثرات العربی بیروت ١٤٣)

موت کو یاد کرنے کی ترغیب ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تاکید کے ساتھ یہ تعلیم دی ۔ موت کی یاد انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی تک پہنچادیتی ہے۔

بداخلاقی کے نقصانات:

اخلا ق سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں، جب اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں بدقسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں۔

اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آج کل اکثر لوگ بداخلاقی کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں، بداخلاق لو گ ان تلخیوں کو اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ زندگی خود زہر بن کر رہ جاتی ہے، بداخلاقی انسانیت اور کائنات کو برباد کردیتی ہے اور بداخلاق لوگ میں برائیاں سب سے زیادہ ہوں گی۔

ایک بزرگ کا قول :

ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں اچھے اخلاق اجنبی کو اپنا بنادیتے ہیں اور برے اخلاق اپنوں کو اجنبی بنادیتے ہیں۔ اسلام میں اچھے اور برے اخلاق کا مسئلہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے وہ کسی انسانی عقل یا تجربہ کا محتاج نہیں۔

فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم : بُرے اخلاق اعمال کو اس طرح خراب کردیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔(طبرانی)

بداخلاق لوگ دین کو سمجھ نہیں سکتے بداخلاقی کا وزن برائیوں میں سب سے زیادہ ہوگا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بخیل ،دھوکہ باز، کوئی خىانت کرنے والا ، کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسند احمد ، جلد اول باب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مرویات)

جس کے پاس دین کا علم نہیں وہ بداخلاق ہی ہوتا ہے بداخلاق شخص سے لوگ نفر ت کرتے ہیں اس سے دور بھاگتے ہیں اسے دینی و دنیاوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خو دبھی پریشان رہتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے، بدا اخلاق شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں، بندہ بُرے اخَلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچ سکتا ہے بداخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیبتوں میں مبتلا کرلیتا ہے بداخلا ق شخص ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابلِ استعمال نہیں ہوتا۔ (کتاب البر، ترمذی ، باب ماجاء فی والصلاۃ حسن خلق ٢٠٣ حدیث نمبر ٢٠٠٩)

بداخلاقی حسن اخلاقی کی ضد ہے، بداخلاقی سے انسان ایک دوسرے سے دور ہوجاتا ہے آپس میں پیار و محبت کم ہوجاتا ہے، بداخلاقی سے دل میں بغض و حسد جیسی بیماریاں جنم لے لیتی ہیں بد اخلاقی انسان کو دین سے بھی دور کردیتی ہے بداخلاقی سے کئی گھرانے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں اور اس موڑ پر آکھڑے ہوتے ہیں کہ خون خرابے ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور نفرتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
دعائے
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: اللھم انی اعوذبک من الشقاق والنفاق وسو ءالاخلاق

ترجمہ :اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے، نفاق سے اور بداخلاقی سے۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ دعا اس طرح مانگا کرتے تھے۔ ہم بھی اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہم تیری پناہ چاہتے ہیں عداوت سے ، نفاق سے اور بداخلاقی سے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں