فرض علوم سىکھنا فرض ہے؟
صاحبِ شرع حضور نبى کرىم صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا:
طلب العلم فرىضۃ على کل مسلم (ابن ماجہ کتاب السنہ ، باب فضل العلما الخ حدىث ۲۴۴)
ىعنى علم کا طلب کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے، تو اب کون سا علم
سىکھنا فرض ہے اور عبادت کے لىے بندے کوکتنا علم حاصل کرنا ضرورى ہے؟ تو ىاد رکھىں
جن علوم کا حاصل کر نا فرض ہے وہ تىن طرح کے علوم ہىں۔۱۔ علم توحىد۲۔ دل اور اس کے
باطنى مسائل سے تعلق رکھنے والا علم سِر ۳۔ علم شرىعت
ان مىں سے ہر علم کتنا اور کس قدر سىکھنا ضرورى ہے اس کى
تفصىل درجِ ذىل ہے۔
۱۔ علمِ توحىد :
علم توحىد مىں اتنا جاننا ضرورى ہے جس سے دىن کے بنىادى اصول معلوم ہوجائىں وہ
اصول ىہ ہىں تمہىں ىہ معلوم ہو کہ تمہارا
اىک معبود ہے، جو علم والا قدرت والا ہمىشہ سے زندہ ار ادہ فرمانے والا کلام
فرمانے والا ،سننے والا ىکتا و واحد ہے، جس کا کوئى شرىک نہىں، وہ تمام صفات
کمالىہ کا جامع ہے ،تمام عىوب و نقائص سے پاک ،اور ہمىشہ سے ہے، اور نبى کرىم صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہىں وہ اللہ کے پاس سے جو بھى لائے ہىں اور انہوں نے آخرت کے بارے مىں جو بھى فرماىا
سب مىں سچے ہىں، پھر جس چىز کو کتاب اللہ اور سنت رسول نے بىان نہىں کىا اس کو دىن مىں بدعت بنانے سے بچىں۔
اور رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کى سنت مسائل و اصول جاننا بھى تم پر لازم ہے، ورنہ اس کے
ساتھ تمہارا معاملہ بہت بڑے خطرے سے دو چار ہوجائے گا۔
۲۔ ضرورى
علم سِر:
علمِ سِر ىعنى باطنى علم اتنا سىکھنا فرض ہے کہ ىہ پتا چل
جائے کہ کن چىزوں سے دل کى صفائى ہوتى ہے
اور کن چىزوں سے دل کو بچانا ضرورى ہے ىہاں تک کہ تمہىں اللہ عزوجل کى تعظىم اس کے لىے اخلا ص ، نىت کى درستى اور عمل کى سلامتى نصىب ہوجائے۔
۳۔ ضرورى
علمِ شرىعت :
علمِ شرىعت سے اتنا سىکھنا فرض ہے جس سے تمہىں وہ چىز معلوم
ہوجائے جس کا کر نا تم پرفرض ہے تاکہ تم اسے ادا کر سکو۔ مثلا عبادت، نماز،
روزہ، حج جہاد و زکوة ان سب کا علم سىکھنا
فرض ہے ، جب کہ ىہ عبادات تم پر لازم ہو ہوچکىں ہوں، ىہ علم کى وہ مقدار ہے جس کا حاصل
کرنا بندے پر بہر صورت لازم ہے اور اب ضرورى ہونے کى حىثىت سے علم کى فرضىت متعىن
ہوگئى۔
ہر وہ چىز جس سے عدم واقفىت اور جہالت ہلاکت مىں ڈال دے اس
کا علم حاصل کر نا ضرورى بلکہ فرض ہے تمہارے لىے اس کے ترک کى کوئى راہ نہىں، اس
بات کو مضبوطى سے تھام لو اللہ عزوجل توفىق عطا فرمائے۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں