حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضة علی کل مسلم یعنی
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و (عورت ) پر فرض ہے۔ (شعب الایمان، باب فی طلب
العلم الحدیث ۱۴۴۵، ج ۲، ۔۲۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہر مسلمان مرد و
عورت پر علم سیکھنا فرض ہے(یہاں) علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہذا روزے
نماز کے مسائل ضروریہ سیکھنا ہر مسلمان پر
فرض ہے۔ حیض و نفاس کے ضروری مسائل سیکھنا
ہر عورت پر، تجارت کے مسائل ہر تاجر پر ، حج کے مسائل سیکھنا حج کو جانے والے
پر عین فرض ہیں۔ لیکن دین کا پورا عالم
بننا فرض کفایہ کہ اگر شہر میں ایک نے ادا کردیا تو سب بری ہوگئے۔(مراة المناجیح،
ج ۲، ص ۲۰۲)
امیر اہلسنت اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو افسوس آج کل صرف
اور صرف دنیاوی علوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا رجحان ہے۔ علم دین کی طرف بہت ہی
کم میلان ہے حدیث پاک میں ہے علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے(سنن
ابن ماجہ، ج ۱، ص ۱۴۹، حدیث ۲۲۴)
اس حدیث پاک کے تحت آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ فرمایا
اس کا آسان لفظوں میں مختصر خلاصہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
سب میں اولین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ
بنیادی عقائد کا علم حاصل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ سنی بنتا ہے، اس کے بعد
مسائل نماز یعنی اس کے فرائض و واجبات شرائط ومفسدات سیکھے تاکہ نماز صحیح طور پر
ادا کرسکے ،پھر جب رمضان کی تشریف آوری ہو تو روزوں کے مسائل م،الک نصاب ، نامی
(یعنی حقیقتہ یا حکماً بڑھنے والے سال کے نصاب کا مالک ہوجائے ، تو زکوة کے مسائل
صاحبِ استطاعت ہو تو مسائل حج، نکاح کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری مسائل سیکھے،
تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل ، مزارع یعنی کاشتکار زمیدار کے لئے ، کھیتی باڑی کے مسائل ملازم بننے اور ملازم
رکھنے والے پر اجارہ کے مسائل ، وعلی ھذا القیاس
یعنی اس پر قیاس کرتے ہوئے ، ہر مسلمان
عاقل و بالغ مرد و عورت پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سکھنافرض ہے۔ نیز مسائل قلب ( باطنی فرائض) مثلا عاجزی و اخلاص
اور توکل وغیرہ اور ان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور باطنی گناہ مثلا تکبر و ریا کاری
حسد وغیرہا اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرائض سے ہے۔ مخرج (شوقِ علمِ ِ
دین،فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج ۲۳، ص ۶۲۲، ۶۲۴)
نوٹ:
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں