فرض علوم سے مُراد وہ علوم ہیں کہ جن کی طرف انسان دین میں محتاج ہویعنی وہ علوم جن کی دین میں ضروت پڑتی ہواور ان میں  سب سے پہلے جس علم کا سیکھنا ضروری ہے وہ علم العقائد ہے،کہ جن کے اعتقاد سے انسان مسلمان سنُّی المذہب ہوتا ہے اوربوجہ انکارو مُخالفت سے کافر یا بدعتی ہوجاتا ہے ۔مثلاً اللہ تعالی کی ذات وصفات،رسالت ونبوت،ملائکہ وجن ،قبروحشراور دوزخ وجنّت اورتقدیر و غیرہ کا علم۔

اوراس کے بعد مسائلِ نماز کا سیکھنا ضروری ہے، یعنی نماز کے فرائض وشرائط اور مفسدات کا علم جن کے جاننے سے نماز صحیح طور سے اداکی جاسکے، جب رمضان آئے تو مسائلِ صوم سیکھنا لازم ہے یعنی کن چیزوں سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر صاحبِ نصاب ہے تو مسائلِ زکوة کا جاننا ،صاحبِ استطاعت ہو تو مسائلِ حج کا سیکھنااور اگر نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے متعلق مسائل کا جاننااور اگر تاجر ہے تو مسائلِ بیع وشرا کاجاننا لازم وضروری ہے۔

اسی طرح حلال وحرام کا علم سیکھنا کہ ہر مسلمان کو اس کی حاجت ہے اور پھر مسائلِ علمِ قلب کا جاننایعنی فرائضِ قلبیہ مثلاً تواضع، اخلاص،توکُّل وغیرہ اور ان کے حصول کے طریقوں کا جاننااور محرماتِ باطنیہ کا علم مثلاً تکبر، ریا،عجب و حسد،غیبت وغیرہ اور ان سے بچنے کے اسباب کا علم بھی ہر مسلمان پرفرضِ عین ہے،جس طرح بے نمازی فاسق و فاجراورمرتکبِ کبائر ہے اسی طرح ریا کار ،غیبت و حسد کرنے والاگناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔

درمختار میں ہے:

اعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج لدینہ۔جان لیجئے!علم سیکھنا اوراسے حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور اس سے مُراداتنی مقدار ہے کہ جس کی دین میں ضرورت پڑتی ہے۔(الدر المختار)

ردالمحتار میں ہے:

فرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن نصاب، والحج لمن وجب علیہ، والبیوع علی التجار لیحترزوا عن الشبہات والمکروہات فی سائر المعاملات، وکذا أہل الحرف، وکل من اشتغل بشئ یفرض علیہ علمہ وحکمہ ولیمتنع عن الحرام فیہ ۔

دینی علم اور ہدایت حاصل کرنے کے بعدہر عاقل بالغ مرد ،عورت پروضو،غسل،نمازاور روزہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے،اور اسی طرح مسائل زکوٰۃ کا اُس شخص کیلئے جانناجو صاحبِ نصاب ہے اور حج کے مسائل جس پر وہ واجب ہے،اور خریدو فروخت کے مسائل کا جانناکاروبارکرنیوالوں کیلئے تاکہ وہ اپنے تمام معاملات میں مشکوک اور مکروہ کاموں سے بچ جائیں یونہی پیشہ ور اورہر ایسا آدمی جوکسی کام میں مشغول ہوتو اُس پراس کام کا علم رکھنا فرض ہے،اور اس کا حکم یہی کہ تاکہ وہ اس معاملے میں حرام سے بچ جائے۔(ردالمحتار)

اور اسی میں ہے:

فی تبیین المحارم: لا شک فی فرضیۃ علم الفرائض الخمس وعلم الاخلاص، لان صحۃ العمل موقوفہ علیہ، وعلم الحلال والحرام وعلم الریاء ، لان العابد محروم من ثواب عملہ بالریاء وعلم الحسد والعجب إذ ہما یأکلان العمل کما تأکل النار الحطب، وعلم البیع والشراء والنکاح والطلاق لمن أراد الدخول فی ہذہ الاشیاء ،وعلم الالفاظ المحرمۃ أو المکفرۃ۔یعنی تبیین المحارم میں ہے!اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجگانہ فرض نمازوں کی فرضیّت کا علم اور حصولِ اخلاص کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ ہر عمل کی صحت اس پر موقوف ہے یونہی حلال وحرام کاعلم اور ریا کا علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ عابد ریا کار اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے عمل کے اجرو ثواب سے محروم رہتا ہے،حسد اور خود پسندی کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں انسانی اعمال کو اس طرح کھا جاتے جیسے آگ لکڑی کو،خریدو فروخت،نکاح،طلاق وغیرہ کے مسائل اُس شخص کیلئے ضروری ہیں جو ان کاموں کو کرنا چاہے،یونہی حرام اور کفریہ الفاظ کا جاننا ضروری ہے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں