فرمان مصطفیٰ ﷺ:
تم میں سے بہتریں وہ ہے جو اپنے گھر والوں
کے لیے سب سے بہترین ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ (ترمذی،
5/475، حدیث: 3921)
آج کل دیکھنے
میں آتا ہے کہ بہت سی خرابیوں کی طرح خاندانی نظام میں بگاڑ آگیا ہے کسی کی اپنی بہن سے نہیں بن رہی تو کسی کی
اپنے بھائی سے کوئی کسی وجہ سے کسی سے نہیں مل رہا تو کوئی کسی وجہ سے تو کسی کے
سسرالی معاملات میں بگاڑ ہے، ایک عورت جب شادی ہو کر دوسرے گھر جاتی ہے تو اسکا تعلق مختلف رشتوں سے ہوتا ہے اسے چاہیے ان رشتوں کو وہی عزت و محبت دے جو
وہ اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کو دیتی ہے اور اسکے سسرال والوں کو بھی چاہیے اسے
وہی عزت محبت پیار دیں جو وہ اپنی بیٹی کو
دیتے ہیں اسے بھی اپنی بیٹی سمجھیں لیکن معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔
ساس کے جو
معاملات اور رویہ اپنی بہو کے ساتھ ہوتا ہے وہ نہایت ہی قابل مذمت ہوتا ہے وہ اپنی بیٹی اور بہو میں واضح فرق کرتے
ہیں معاشرے میں موجود ایک بہت بڑی بڑائی
ساس کا بہو کے ساتھ نامناسب رویہ ہے بہت سے واقعات ایسے ہیں جن میں ساس کا بہو کے
ساتھ نامناسب رویہ دیکھنے کو ملتا ہے عموماً ساسیں محدود ذہنیت اور اناپرستی کا
مظاہرہ کرتی ہیں جن کے باعث بہوؤں سے ان
کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا بسایا گھراجڑ جاتا ہے ساس کا بہو اور بیٹی میں فرق کرنا قابل مذمت ہے اسی طرح بہو کا اپنی ماں
کی عزت کرنا اور شوہر کی ماں کی عزت نہ کرنا بہت بری بات ہے۔
اسلام ایسی نا
انصافی کی اجازت نہ ماں کو دیتا ہے نہ بہو کو دیتا ہے ایسی ساسوں کو چاہیے کہ بہو کو گھر کی نوکرانی
مت سمجھیں بیٹی کی بڑی سے بڑی غلطی نظرانداز کردی جائے اور اگر بہو نے چھوٹی سے
کوئی غلطی کر دی تو اسے اندھی اور نکمی ہونے کا طعنہ دیا جائے طنز کے تیر پھیکے جائیں
بہو کے ہاں بچے کی ولادت پر ساس کہتی ہے ہمارے بھی بچے ہوئے ہم نے دو دن سے زیادہ
آرام نہیں کیا آج کل کی لڑکیاں کام
چور ہوگئی ہیں اس موقع پر ساس کو سوچنا چاہیے کہ جو سلوک میں
اپنی بہو کے ساتھ اس کی اس حالت میں کر رہی ہوں اگر یہ سب میری بیٹی کے ساتھ ہو تو
کیا میں برداشت کرلوں گی؟
اگر بہو ناراض
ہو کر میکے چلی جائے تو اس کا قصور وار بہو کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اس بات کو جاننے
کی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ واقعی بہو کا کوئی قصور ہے بھی یا نہیں؟ اسکی کوئی
غلطی ہے بھی یا نہیں؟ اس موقع پر ساس یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرا بیٹا بھی اسی طرح
بہو کا خیال رکھے جس طرح میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کا خیال رکھا جائے لمحہ فکریہ
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں یہ دراصل ہماری زندگی میں لگنے والے زخم ہوتے ہیں
جن سے ہمیں ہلکی سی جلن ہوتی ہے اگر ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تو یہ خود
بخود ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ہم انہیں
کریدتے ہیں عورت اپنی ساس کی برائی شوہر سے کرتی ہے ساس بہو کی برائی کرتی
رہے تو یہ باتیں دل میں بیٹھ جاتی ہیں۔
ساس کو چاہیے
اپنی بہو کے ساتھ اچھا سلوک کرے اسکو گھر
کی نوکرانی تصور نہ کرے اس کی غلط باتوں
کو جہاں تک ممکن ہو نظرانداز کرے حسن تدبیر سے کام لیں اور بہو کو بھی چاہیے کہ
اگر ساس کسی بات پر ڈانٹ دے غصہ کر دیں تو یہ سوچ کر صبر کر لے اور جواب نہ دیں کہ
اگر اس جگہ میری ماں ہوتی تو میرا کیا عمل ہوتا؟ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے
حقوق کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتی رہیں صبر و برداشت اور درگز سے کام لیں۔
بہرحال اگر ہم زندگی کو خوشحال بنانا چاہتی ہیں اور اگر چاہتی ہیں کہ ہماری زندگی
دوسروں کے لیے آئیڈیل بن جائے تو آپس میں خوب محبت سے رہیں ایک دوسرے کا خیال
رکھیں۔
اگر ساس
بہو آپس میں ایک دوسرے کی محبت کو کم ہوتا دیکھیں تو اس کے لیے خوب دعا کریں اگر
ساس بہو ان باتوں کو اپنا لیں گی اور ان اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کا
ارادہ کرلیں تو الله کے کرم سے دنیا ور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گی
اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والی بن جائیں گی۔