بہو کو نوکرانی
مت سمجھیے از بنت عبدالرشید عطاری، فیضان ام الحفصہ رائیونڈ
خاندانی نظام
کی بنیاد محبت، احترام اور باہمی تعاون پر ہوتی ہے۔ ایک معاشرتی روایت ہے کہ بہو
کو اکثر نوکرانی یا خادمہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ تصور نہ صرف غلط ہے
بلکہ اس سے خاندانی تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ ایک بہو کو گھر کے معاملات میں
فعال شریک بننے کی بجائے ایک محض خدمت گار کے طور پر دیکھنا نہ صرف اس کی ذاتی
حیثیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ خاندان کے اندر ایک سنگین مسئلہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اس
موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں مختلف اسلامی تعلیمات، ثقافتی روایات اور اخلاقی
نظریات پر غور کرنا ہوگا تاکہ اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔
اسلامی
نقطہ نظر: اسلام میں انسانوں کو ان کے حقوق دینے
کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں خواتین کا مقام بہت بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ
تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرمایا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:
19) ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن
سلوک سے پیش آؤ۔
یہ آیت بہو کو
بھی اس بات کا حق دیتی ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اسے گھر کے معاملات
میں ایک برابر کی شریک سمجھا جائے۔ بہو کو گھر کی نوکرانی سمجھنا اس اسلامی
تعلیمات کے خلاف ہے۔
ثقافتی
تناظر: پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک میں
روایتی طور پر یہ رواج رہا ہے کہ بہو کو کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ بعض خاندانوں میں
بہو کے لیے یہ سوچ عام ہے کہ وہ محض شوہر کے والدین کی خدمت کرنے کے لیے آئی ہے۔
یہ رویہ نہ صرف معاشرتی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ بہو کو گھر کے دوسرے
افراد کے ساتھ مساوی حقوق دینے سے گھر میں محبت اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوتی ہے۔
ایک مشہور
پاکستانی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ جب بہو کو گھر کے فرد کے طور پر قبول کیا جاتا
ہے اور اسے محبت اور احترام ملتا ہے تو گھر میں خوشحالی اور سکون آتا ہے۔ ان کے
مطابق، ایک بہو کو نوکرانی سمجھنے سے نہ صرف اس کا دل ٹوٹتا ہے بلکہ وہ اپنے نئے
گھر میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتی ہے، جو کہ طویل عرصے میں مشکلات کا سبب بن
سکتا ہے۔
خاندان
میں محبت اور احترام: ایک خاندان میں ہر فرد کا اپنا مقام
ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہر کسی کی عزت کی جائے۔ اگر بہو کو نوکرانی سمجھا جائے
گا تو اس کا اثر نہ صرف اس کی شخصیت پر پڑے گا بلکہ پورے خاندان پر بھی اثر انداز
ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر بہو کو گھر کے ایک اہم رکن کے طور پر دیکھا جائے گا اور اس
کے خیالات اور احساسات کو اہمیت دی جائے گی، تو یہ بات پورے خاندان کی ہم آہنگی کو
بڑھا دے گی۔
خاندانی نظام
میں محبت اور احترام کا تبادلہ سب سے ضروری چیز ہے اور جب یہ اصول کمزور ہو جاتے
ہیں تو خاندان کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔
حکمت
عملی: بہو کو نوکرانی نہ سمجھنے کی حکمت عملی
یہ ہے کہ اسے گھر کے ایک اہم رکن کے طور پر عزت دی جائے۔ اسے اپنی رائے دینے کا
موقع ملے اور اس کی محنت کو سراہا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شوہر کو یہ ذمہ داری بھی
ادا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو بہو کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرے تاکہ دونوں
طرف سے بات چیت کی فضا قائم ہو۔