ہمارے معاشرے
میں بیوی کو بعض گھرانوں میں ایک نوکرانی کی حیثیت دی جاتی ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر
گھر میں ہی ایسا ہو اچھوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر بعض گھرانے ایسے ہیں جہاں بیوی کو
بہت نیچا محسوس کروایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے گھر کے کام کاج، شوہر کی فرمانبرداری، ساس
سسر نندوں وغیرہ سے حسن سلوک بیوی کی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بیوی کے بھی
حقوق قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ جہاں دین اسلام نے نماز روزہ زکوۃ حج اور
دیگر عبادات وغیرہ کا درس دیا وہیں بندوں
کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بھی
تاکید فرمائی ہے۔ جس طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر مرد کے حقوق لازم کیے ہیں بالکل
اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کے حقوق لاگو فرمائے ہیں۔ جیسا کہ پارہ 2 سورۃ البقرہ
آیت نمبر 228 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ
عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کا بھی
حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔
اسی آیت کے
متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے: اور
عورتوں کے لیے بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر ہے یعنی
جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے
حقوق پورے کرنا بھی لازم ہے۔
اسی طرح قران
کریم میں ایک اور جگہ پارہ 4 سورۃ النساء آیت 19 میں ارشاد فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
سے پیش آؤ۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں
کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں ان کے ساتھ انصاف کرنا ان کے
ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔
آج کل کے
مردوں کو دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ اور چیخنا چلانا شروع کر دیتے
ہیں بیوی کو گویا انسان سمجھتے ہی نہیں اور مارنے لگتے ہیں۔ گھر گندہ ہے، صفائی
نہیں کی اور اپنی ضروریات کا مطالبہ کرنا وغیرہ جیسی باتوں پر،حالانکہ حدیث پاک
میں ہے: تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے
آخر میں سے صحبت کرے گا۔ (بخاری، 3/465، حدیث: 5182)
بیوی بھی
انسان ہے غلطی کس انسان سے نہیں ہوتی؟ مرد کو چاہیے کہ درگزر کرے، اپنے غصے پر
قابو پائے، اور خود پر غور کرے کہ آیا وہ خود کیسا ہے؟ کیا بیوی کے تمام حقوق پورے
ادا کر رہا ہے یا نہیں؟
میں نے دیکھا
ہے اپنی آنکھوں سے، اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ مرد یہ کہہ کر کہ ”مرد تو کچھ بھی
کرتا ہے“ بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ مرد تو کچھ بھی کرتا ہے؟
شریعت نے تو ہر ایک کے احکام بیان کیے ہیں۔اگر بیوی کو حکم ہے کہ: شوہر کی ہر بات
مانے، اس کا ادب کرے،تو شوہر کو بھی حکم
ہے کہ بیوی کی خواہشات کا، اس کے حقوق کا خاص خیال رکھے، اس پر بے جا ہاتھ مت
اٹھائے اور اس کے ساتھ مخلص رہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ حدیث پاک میں ہے: بے
شک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش
آئے۔ (ترمذی، 5/475، حدیث: 3921)
مزید یہ کہ
دیکھا گیا ہے کہ آج کل کے مرد اپنی بیویوں پر خرچ نہیں کرتے گھر کی ضروریات پر
توجہ نہیں دیتے اور باہر کے لوگوں پر سخی بنے پھرتے ہیں۔ بیوی کسی چیز کا مطالبہ
کرے یا گھر کی کسی ضرورت کا ذکر کرتی جائے تو رزق میں تنگی کی کہانیاں سنانے لگتے
ہیں حالانکہ فضول و حرام کاموں میں خرچ کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ ان کی بے جا سختی
اور غصّے کی وجہ سے بیوی اور بچے اپنی خواہشات دبا لیتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: بدترین
انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔ عرض کی گئی وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟
ارشاد فرمایا: جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے بچے بھاگ جاتے ہیں
اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اور دیگر گھر
والے سکھ کا سانس لیں۔ (معجم اوسط، 6/287، حدیث: 7898 )
حالانکہ بیوی،
بچوں اور گھر والوں پر خرچ کرنے کا احادیث پاک میں حکم ارشاد فرما گیا ہے، بیشمار
فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، چنانچہ حدیث پاک ہے: اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ
کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو
(اس کا بھی اجر ملے گا)۔ (بخاری، 1/438، حدیث:
1295)
اسی طرح دیکھا
جائے تو ساس کا بھی رویہ جیسا ہونا چاہئے، بدقسمتی سے ویسا ہوتا نہیں ہے۔بعض اوقات
تو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ساس کو بہو کا وجود ہی برداشت نہیں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر کوستے رہنا، ڈانٹنا
باتیں سنانا حتیٰ کہ بہو پر ہاتھ اٹھانا۔ جی ہاں! اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ایسی
بھی صورت۔
پہلے سارا
سارا دن بہو سے الجھی رہتی ہیں اور اس بات کی دھمکیاں دیتی ہیں کہ آنے دو بیٹے کو
آج تمہاری فلاں شکایت کروں گی اور پھر نند صاحبہ لگی آگ مزید بڑھکانے چلی آتی ہیں۔
پھر جیسے ہی شوہر گھر تشریف لاتا ہے دونوں
ماں بیٹی بہو کے خلاف کان بھرنا شروع کردیتی ہیں اور بیوی جو سارا دن ساس کے طعنے
سن سن کر اور کام کاج کر کر کے تھکن سے پہلے ہی نڈھال ہوئی ہوتی ہے، باقی رہتی کسر
شوہر نکال دیتا ہے۔
ساس کو چاہیے
کہ اپنی بہو کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے جیسا اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتی ہے۔
یقیناً ہر ماں ہی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری بیٹی کو اچھا سسرال نصیب ہو۔ نندیں
اچھی ہوں ساس پیار کرنے والی ملے، اگر اپنی بیٹی کیلئے ایسی خواہش رکھتی ہے تو
دوسرے کی بیٹی کیلئے خود بھی ویسی بننے کی کوشش کرے۔ اسی طرح نندوں کو بھی چاہئے
کہ یہ دیکھیں کہ وه بھی تو کسی گھر کی بہو ہیں۔ کیا خود کے ساتھ بھی ایسا سلوک پسند کرتی ہیں؟
حدیث پاک کا
مفہوم ہے: لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، جو اپنے لیے
ناپسند کرتے ہو اسے دوسروں کےلیےبھی ناپسند کرو، جب تم بولو تو اچھی بات کرو یا
خاموش رہو۔ (مسند امام احمد، 8/ 266،
حدیث: 22193)
اسلام تو
خیرخواہی کا درس دیتا ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ
بھلائی کرنے کا درس دیتا ہے۔ بعض احادیث میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ جب تک مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے
وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تب تک وہ کامل مومن ہی نہیں ہوسکتا جیسا
کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے
کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی
پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث: 13)
اللہ کے نبی ﷺ
نے بتایا ہے کہ کسی شخص کو ایمان کامل کی دولت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی، جب تک
اپنے بھائی کے لیے بھی دین اور دنیا کی وہی چیزیں پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا
ہو اور اس کے لیے انہی چیزوں کو ناپسند نہ کرے، جنہیں اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔
اگر اپنے بھائی کے اندر دین کی کوئی کمی دیکھے، تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور
کوئی اچھائی دیکھے تو اسے اور جلا دے اور اس میں مدد کرے۔ دین اور دنیا سے متعلق
تمام امور میں اس کی خیرخواہی کرے۔
اگر بہو میں
کوئی ایسی بات ہو جو ساس یا نند وغیرہ کو ناگوار گزرتی ہو، تو پیار اور محبّت سے
سمجھا دیں۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ساس کو چاہیے کہ بہو کے ساتھ بھی بیٹیوں کا
سا سلوک کرے۔حسن سلوک سے ہر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
ہمارا کوئی تو
عمل ایسا ہو جو قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔ بلاشبہ قیامت کے دن نجات
الله تبارک و تعالیٰ کی خاص رحمت اور حضورﷺ کی شفاعت سے ہی نصیب ہونی ہے۔
اللہ ہمیں
اپنی اطاعت کرنے کی اور ہر ہر احکام پر استقامت سے عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ
اور اس کے رسول ﷺ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راضی ہو جائیں۔ آمین