بہو کو نوکرانی
مت سمجھیے از بنت محمد ارشد، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
بہو کو
نوکرانی مت سمجھئے ایک اہم نصیحت ہےجو معاشرے کا ایک اہم ترین قصہ ہے اور معاشرے
میں ہر گھر کی کہانی بن چکا ہے بہو کو نوکرانی مت سمجھیئے موضوع جو قرآن، حدیث، اور اخلاقی تعلیمات سے واضح
ہوتی ہے۔ یہ نصیحت اس بات پر زور دیتی ہے کہ شادی کے بعد بہو کو خاندان کا حصہ
سمجھا جائےاور گھر میں بھی اسکے عزت و احترام کا خیال رکھا جائے اور عزت نفس کو
مجروح کرنے کی بجائے اسکی عزت و آبرو کی حفاظت اور محافظ بنا جائے اور اس کے ساتھ نرمی و احترام سے پیش آیا جائے، نہ کہ اسے صرف خدمت
گزار یا نوکرانی کے طور پر دیکھا جائےجہاں تک گھر کی بہو کی بات ہے تو اسے گھر کا
فرد اور سمجھنا اور اچھا سلوک کرنے کا حکم شریعت نے دیا ہے اور بد سلوکی سے منع
نہیں کیا گیا ہے کیونکہ بہو ایک بیٹی بن کر آتی ہے اپنا پچھلا گھر چھوڑ کر اپنے
نئے گھر میں جب آتی ہے تو اسے بیٹی جیسا سلوک کرنا اسکا حق ہے نہ کہ بد سلوکی۔ گھر
کے فرد میں شامل نہ کیا جائے۔
اس حوالے سے
قرآن و حدیث میں رہنمائی موجود ہے، جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا
بَنِیْۤ اٰدَمَ (پ
15، الاسراء: 70) ترجمہ: اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر
انسان، خواہ مرد ہو یا عورت، عزت کا حقدار ہے بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر اگر
گھر کا فرد سمجھا جائے تو کبھی بھی بہو کے حق میں تلافی نہیں ہو گی۔ بہو کو
نوکرانی سمجھنا اس عزت کے خلاف ہے اور معاشرے میں بہت بڑے فساد کا باعث اور گھر
ٹوٹنے کا سبب ہے۔
اسلام میں
نکاح ایک معاہدہ ہے،معاہدہ کا معنی ایک عہد کرنا ایک وعدے میں بندھنا ہے جس میں دونوں فریقین کے حقوق اور فرائض متعین
کیے گئے ہیں۔ بہو کو شوہر اور اس کے خاندان کا احترام کرنا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ وہ اپنی عزت، آزادی، یا آرام سے اپنے حق سے محروم ہو۔
اسلامی
تعلیمات کے مطابق، ہر عورت کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
بہو کو نوکرانی سمجھنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام مساوات،
عدل نرمی عزت حفاظت اور حسن سلوک کا درس
دیتا ہے۔
قرآن
مجید کی تعلیمات:
1۔
حسن سلوک کا حکم: اللہ
تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء: 19) ترجمہ: اور تم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آؤ۔یہ آیت میاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے ہے، لیکن اس کا اطلاق خاندان کے دیگر
افراد پر بھی ہوتا ہے۔ بہو کو بھی عزت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
2۔
عورت کا مقام: قرآن
مجید میں واضح کیا گیا: وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ
لِّیَبْلُوَكُمْ (پ
8، الانعام: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور تم
میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے۔ یہ آیت ظاہر
کرتی ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر ظلم یا زیادتی کا حق
نہیں۔
عورت کا مقام
دینِ اسلام میں بہت زیادہ وسیع ہے پہلے وہ ایک بیٹی ہوتی ہے کبھی بہن پھر بہو بنتی
ہے پھر ماں بنتی ہے ہر درجہ ماں کا الگ اور ہر مقام الگ جیسے جیسے مقام بدلتا رہتا
ہے ویسے اس کے درجات برھتے چلے جاتے ہیں۔ حدیث کے مطابق، خاندان کے ہر فرد، بشمول
بہو، کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کا تقاضا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: تم میں سب
سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہے، اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ
تم سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی، 5/475، حدیث:3921)