گھر کے سکون
اور آرام کے لیے اخلاقیات بہت ضروری ہیں کہ محبت اور اخلاق سے ہی ایک گھر کا سکون اور آرام برقرا رہ سکتا ہے کہ دنیا
چلتی ہے اصول سے اور گھر چلتاہے اخلاق سے، مگر آج کل جوائنٹ فیملی سسٹم بن چکا ہے۔
وہ بہو کو نوکرانی سمجھتے ہیں جو اخلاقی
طور پر درست نہیں ہے اور بعض گھروں کا
تو اسی طرح کا ماحول ہوتا ہے۔ اور وہ اسی سوچ سے کسی کی بیٹی
کو اپنے گھر بہو بنا کر لاتے ہیں کہ
نوکرانی لارہے ہیں اور گھر کی تمام ذمہ
داریاں اس پر ڈال دی جاتی ہیں۔
یہ نوکرانی کا
تصور اور یہ احمقانہ سوچ اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ ساس اور سسر کی خدمت کرنا عورت پر
فرض ہے اور پھر دیور جیٹھ اور نند وغیرہ
کے بھی حقوق ہیں۔ اگر ان کے مطالبے کے
مطابق کام نہ کرے گی تو گنہگار ہوگی۔ لہذا سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ عورت پر سسرال میں کس کس
کا حق ہے؟ اس پر علماء کرام فرماتے ہیں
عورت پر براہ راست صرف اور صرف اس کے شوہر
کا حق ہوتا ہے۔اور اس کے علاوہ گھر کے کسی بھی فرد کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ عورت سے اپنا حکم منوائے۔ یہ جو
اپنے پاس سے دیور جیٹھ کے حقوق بنالیے ہیں
یہ غلط ہے۔ عورت خدمت اپنے شوہر کی کرے گی
عزت سب کی کرے گی اور شوہر کے والدین بھی عورت کی ذمہ داری نہیں ہیں اور ان کی خدمت کرنا عورت پر فرض ہے نہ واجب۔ لیکن اگر اس نیت سے ان کی خدمت
کرے گی۔ کہ یہ میرےشوہر کے والدین ہیں اور انکی خدمت کرنے سے شوہر کے
دل میں خوشی داخل ہوگی اور اللہ پاک کی
رضا مجھے حاصل ہوگی تو یہ ثواب کا کام ہے اور سعادت کی بات ہے۔
اور سسر کو باپ اور ساس کو ماں کا درجہ دینا اور ان
کی عزت اور خدمت کرنا یہ واجب نہیں ہے
بلکہ یہ سب تو اخلاقی طور گھر گھرستی کے
لیے ضروری ہیں۔ لیکن اگر شوہر بیوی سے یہ
امید کرتا ہے اور اسے یہ سمجھاتا ہے کہ
میرے گھر والوں کی عزت اور خدمت کرنی ہے
تو پھر اسے چاہیے کہ وہی نصیحت اپنے گھر
والوں کو بھی کرے کہ وہ بہو کا احترام کریں اور محبت سے قبول کریں، نہ کہ کسی کی
بیٹی کو گھر لاکر ذلیل کریں کہ اسے نوکر
تو کیا انسان بھی نہ سمجھیں۔ یہ بھی کسی
کے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اپنی بیٹی کو اس لیے آپ کے سپرد نہیں کیا تھا اور نہ ہی
وہ اپنا گھر اور رشتے اس لیے چھوڑ کر آئی تھی کہ اپنا سب سکون آرام ختم کر کے وہ آپ کے گھر کے کام کاج کرتی رہے۔آپ
اسے شادی کر کے لائیں ہیں۔ خرید کر نہیں لائے
کہ جیسا مرضی سلوک کریں کوئی جواب داری نہیں ہوگی۔ تو پھر یاد رکھیں کہ تنہائ میں
اس کے بہائے آنسو رب تعالیٰ کو نظر آرہے ہیں کہ اس سے تو کچھ نہیں چھپ سکتا اور آپ
بے شک ظلم کر کے بھول جائیں مگر رب تعالی نہیں بھولتا۔لہذا وہ بھی آپکے اچھے سلوک
اور عزت کی حقدار ہوتی ہے کہ عورت کا حق
صرف روٹی کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ بلکہ اسکی عزت کرنا بھی ہے۔ جو کہ احترام مسلم اور اخلاقی تقاضہ بھی ہے۔ اور عورت کی سیلف ریسپیکٹ کو مینٹین کرنا یہ شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے۔