حضور اکرم، نور مجسم، شاہِ بنی آدم ﷺ کی حسنین کریمین، سیدا شبابِ اہلِ الجنۃ ،سبطینِ رسول،ریحانتینِ رسول ، راکبینِ دوشِ مصطفےٰ سے محبت مثالی تھی۔آقائے شہزادگانِ خیر النساء سیدہ فاطمۃ الزہرا ﷺ و رضی اللہ عنہم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا خود عقیقہ فرمایا۔(مصنف عبد الرزاق،4/254،حدیث: 7993)جبکہ عموماً والدین یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔پھر ان دونوں پاکباز ہستیوں کو گھٹی بھی آپ نے دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)پھر جن کے بارے حضور فرمائیں کہ ”اے اللہ!میں ان سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان سے محبت کر “ان کی شان کا کوئی احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبیِ اکرم،نورِ مجسّم ﷺ کی خدمت میں گیا تو نبیِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ اس طرح تشریف لائے کہ آپ کسی چیز کو گود میں لیے ہوئے تھے، مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے، جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تومیں نے پوچھا:یہ کیا ہے جو آپ گود میں لیے ہوئے ہیں؟ حضور ﷺ نے اسے کھولا تو حَسن و حُسین رضی اللہ عنہما آپ کی آغوش میں تھے،پھر آپ نے اِرْشاد فرمایا:یہ دونوں میرے بیٹے ،میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔الٰہی! میں ان دونوں سے مَحَبَّت کرتا ہوں تُو بھی ان سے مَحَبَّت کر اور جو اِن سے مَحَبَّت کرے اس سے بھی مَحَبَّت کر! ۔(1)

حضور ﷺ نے ان سے محبت کو اپنی ذات سے محبت کرنا قرار دیا جیسا کہ ابنِ ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(2)

اللہ اکبر ! اندازہ لگائیے کہ حضور کے نزدیک امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند اور آپ کی ان سے محبت کتنی زیادہ ہے!

حضور ﷺ آپ سے محبت کا جید صحابہ کرام کے سامنے بھی اظہار فرماتے تھے جیسا کہ ایک دفعہ امیرُ المؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔(3)

پھر جنتی جوانوں کے سردار کی شان دیکھئے کہ سرکار مدینہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ أی اھل بیتک احب الیک کہ آپ کو اہلِ بیت میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو ارشاد فرمایا:حسن اور حسین رضی اللہ عنہما۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ، پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔ (4)

کیسا خوبصورت اور دلنشین انداز ہے!حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں:حضور انہیں کیوں نہ سُونگھتے وہ دونوں تو حضور ﷺ کے پھول تھے ،پھول سُونگھے ہی جاتے ہیں،انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سُونگھنا، ان سے پیارکرنا،انہیں لپٹانا چمٹا نا سنتِ رسول ہے۔(5)

حضور ﷺ نے انہیں اپنا پھول قرار دیا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیثِ پاک ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔(6)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں محبتِ حسنین کریمین سے لبریز ، خوبصورت اشعار فرمائے:

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں

کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل

(حدائقِ بخشش، ص77)

کیا بات رضاؔ اُس چَمَنِسْتانِ کرم کی

زَہرا ہے کلی جس میں حُسَیْن اور حَسَن پھُول

(1)(تاریخ الخلفاء، ص 149روضۃ الشهداء (مترجم) ، 1 /396)

(2)(مسند بزار، 2/315، حدیث:743)(مستدرک، 4/154، 155، حدیث:4826)

(3)(ترمذی ،5/427،حدیث:3794)

(4) (ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)

(5)(ترمذی ،5/432، حدیث: 3809)

(6) (ترمذی، 5/428، حدیث:3797)

(7)(مراۃ المناجیح،8/477)

(8)(ترمذی ،5/ 427،حدیث: 3795)

حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔آپ نے ہر رشتے کو بہترین طریقے سے نبھایا اور اپنی محبت و شفقت سے ہر تعلق کو مضبوط بنایا۔آپ کی اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے محبت بے مثال تھی جو قیامت تک کے لیے ہر مسلمان کے لیے رہنمائی ہے۔

امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو سینے سے لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا:اولاد بخیل اور بزدل بنادینے والی ہے۔

(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد کو( بخیل اور بزدل)فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کے اظہار کے لیے ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔(مراۃ المناجیح،6/ 367)

حضرت بَراء بن عازِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺامام حسن بن علی(رضی اللہ عنہما) کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:الٰہی! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی،5/432،حدیث:3808)

یعنی جس درجہ کی محبت ان سے میں کرتا ہوں تو بھی اسی درجہ کی محبت کر یعنی بہت زیادہ ورنہ حضرت حسن پہلے ہی اللہ کے محبوب تھے۔(مراۃ المناجیح، 8 /383)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)

جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہے ایسے ہی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے ہیں۔(مراۃ المناجیح، 8/475)

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں

کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل

(حدائقِ بخشش، ص77)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح فرمائیں۔(مصنف عبد الرزاق، 4/254،حدیث:7993)

عام طور پر عقیقہ والدین کرتے ہیں لیکن امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی ولادتِ باسعادت پروالدین نے نہیں بلکہ رحمتِ عالم ﷺ نے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آقا ﷺ کو اپنے نواسوں سے کیسی محبت تھی!

حضور ﷺ ان دونوں نونہالوں کو سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔

(ترمذی،5/428،حدیث: 3797)

حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت (یعنی دشمنی) کی اس نے مجھ سے عداوت (یعنی دشمنی) کی۔(ابنِ ماجہ،1/ 96، حدیث:143)

حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی دوران حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما تشریف لائے،انہوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی،کم عمری کی وجہ سے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو منبر سے نیچے تشریف لے آئے،دونوں شہزادوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ کا یہ ارشاد سچ ہے :

اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕوَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(15)(پ28،التغابن:15) ترجمہ:تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ آ زمائش ہی ہیں۔

میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے پڑتے آر ہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔(ترمذی،5/ 429،حدیث: 3799)

کس زباں سے ہو بیان عزو شانِ اہلِ بیت

مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوان ِاہلِ بیت

(ذوقِ نعت ،ص71)


حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما  حضورﷺ کی لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔انہی سے حضور ﷺ کی نسل پاک چلی۔یہ حضور ﷺ کا خاصہ ہے کہ آپ کی نسل پاک آپ کی لاڈلی شہزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی۔حضورﷺ اپنے نواسوں سے بہت محبت فرماتے۔خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا: حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیثِ پاک کی طرف اشارے کرتے ہوئے اپنے ایک ایک شعر میں فرماتے ہیں۔

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں

کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل

(حدائقِ بخشش، ص77)

ایک اور جگہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

(ترمذی ،5/426 ، حدیث: 3793)

نواسۂ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ:نواسۂ رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ، لوگوں کے محبوب ، صاحبِ حکمت اور اللہ پاک کے مقرب ہیں۔آپ بلند مقام اور پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔

حضور ﷺ کی امام حسن رضی اللہ عنہ سے محبت: حضرت عدی بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا: میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سرور ﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں اور ارشاد فر ما رہے ہیں: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ حسن سے بھی محبت کرے۔ ( بخاری،2/547 ،حدیث:3749)

محبوبِ سرکار: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔کیونکہ ایک دن (میں نے دیکھا کہ) آپ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور پیارے مصطفٰے ﷺ کی مبارک گود میں بیٹھ گئے اور داڑھی مبارک کو سہلانے لگے، حضور نبی پاک ﷺ نے ان کا منہ کھولا اور اپنی مقدس زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا: اے اللہ پاک! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ۔

(اللہ والوں کی باتیں،2/62تا 64)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ:سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اور نام نامی حسین اور لقب سبط الرسول و ریحانۃ الرسول ہے۔ (کرامات صحابہ،ص245)

حضورﷺ کی امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت:حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی کو بھی گھر میں داخل نہیں ہونے دینا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوگئے، تو میں نے نبی کریم ﷺ کے رونے کی آواز سنی، میں نے گھر میں جھانک کر دیکھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ روتے ہوئے ان کے سر پردست شفقت پھیر رہے تھے، میں نے عرض کی:اللہ پاک کی قسم! مجھے علم نہیں کہ یہ گھر میں کب داخل ہوئے؟ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:جبریل امین علیہ السلام گھر میں ہمارے ساتھ تھے، جبریل امین علیہ السلام نے عرض کی: کیا آپ حضرت حسین سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا:جی ہاں میں دنیا میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ جبریل امین علیہ السلام نے عرض کی: عنقریب آپ کی امت ان کو کربلا کی زمین پر قتل کر دے گی، پھر جبریل امین علیہ السلام نے کربلا کی مٹی اُٹھا کر حضور اکرمﷺ کو دکھائی۔(معجم کبیر،3/108،حدیث:2819)(معرفۃ الصحابہ،2/12)ایک اور جگہ حضورﷺ نے فرمایا:اللہ پاک اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے۔حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسا ہے۔( ابن ماجہ، 1/96 ، حدیث:144)اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے ۔آمین


مشورہ ایک بہترین عمل اور سنت طریقہ ہے۔ جس کے ذریعہ ایک فرد یا جماعت اپنے فیصلوں کو بہتر بنانے کے لیے دوسروں سے رائے لیتے ہیں، مشورہ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے کیونکہ یہ اجتماعی شعور کو فروغ دیتا ہےاور غلطیوں سے بچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے مشورہ کیا، وہ ناکام نہیں ہوا۔ مشورے کی اس اہمیت کے باوجود جب یہ غلط بنیادوں پر ہو تو نقصان ده ہوتا ہے۔

غلط مشورہ کیا ہوتا ہے؟ غلط مشورہ ایسی رائے یا رہنمائی ہے جو غلط معلومات، محدود علم، ذاتی مفاد، بدنیتی کی وجہ سے دی جاتی ہے، معلومات کی کمی کے باعث بھی لوگ غلط مشورہ دیتے ہے اس لئے معلومات ہونا ضروری ہے تاکہ درست مشورہ فراہم کریں اور جس نے مشورہ مانگا ہے اس کی خیرخواہی ہو، ورنہ خاموش رہیں۔

بعض لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے غلط مشورہ دیتے ہیں۔ جیسے: کسی ملازم کو کمپنی چھوڑنے کا مشورہ دینا تاکہ اپنی ترقی کرنے کا موقع حاصل ہو جائے۔

مشورے کرنے کے جہاں کئی فوائد ہیں اسی طرح غلط مشورے کرنے سے بہت زیادہ نقصانات اٹھانے بھی پڑ جاتے ہیں۔ جیسے: کسی کے حسدو بغض کی وجہ سے کسی کو غلط مشورہ دینا تاکہ وہ ترقی کے راستے پر نہ چل سکیں۔ جبکہ مسلمان مسلمان کا خیرخواہ ہوتا ہے۔ وہ اس کی بد خواہی نہیں چاہ سکتا غلط مشورے کے سبب تنظیم یا کوئی سا بھی صوبہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اس میں خامیاں آ ہی جائیں گی۔جب کہ صحیح مشورے کے سبب تنظیم اور صوبہ کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے اور وہ ترقی پر گامزن ہوگا۔

ہمارے دعوت اسلامی کا دینی ماحول ہی کو دیکھ لیں یہاں باقاعدہ شوریٰ بنی ہوئی ہے جس کے تحت مشورے ہوتے رہتے ہیں اور تنظیم ترقی کی راہ پر پرواز کرتی ہی جارہی ہے۔

الحمدللہ اس میں غلط مشورے دینے کے بہت کم ہی امکانات ہوتے ہیں۔ اگر ہو بھی تو باہم مشورے سے اسے درست کر لیا جاتا ہے۔

عام طور پر مشورے کی ضرورت در پیش ہوتی ہے اس لئے چاہیے کہ کسی ایسے شخص سے مشورہ کریں جو مسئلے کی مکمل سمجھ رکھتا ہو تووہ غلط مشورہ نہیں دے گا امانتدار ہو تقویٰ و پرہیزگار ہو اللہ پاک سے ڈرنے والا ہو تاکہ وہ صحیح مشورہ دیں اگر کسی ایسے سے مشورہ کیا جو شریعت کے حدود کو توڑنے والا ہو تو ہو سکتا ہے اس کے مشورے کے سبب کسی پریشانی میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔

اگر مشورے آپ کو مطمئن نہ کریں تو اس پر غور و خوض کرکے نتیجے کو اخذ کریں جو بہتر لگے اس پر عمل کریں تاکہ آزمائشوں سے بچیں غلط مشورے سے سے بچنے کے لیے دعائیں کریں روز مرہ کی زندگی میں استخارہ اور اللہ سے رہنمائی مانگنے کی عادت اپنائیں تاکہ غلط فیصلوں سے بچ سکیں۔

بعض لوگ رشتے کے حوالے سے بھی مشورہ طلب کرتے ہیں اور انہیں غلط مشورہ دے دیا جاتا ہے جس کے سبب آگے کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے بعد میں مشورہ دینے والوں کو ملامت کیا جاتا ہے اس لئے چاہیے کہ مکمل چھان بین کرکے تب مشورے کی تصدیق کریں تاکہ بعد میں کوئی رسوائی نہ اٹھانا پڑے۔

قرآن کریم میں غلط مشورہ دینے یا کسی کو دھوکہ دینے کی سخت مذمت کی گئی ہے یہ عمل نہ صرف گناہ بلکہ اس کے دنیاوی اور اخروی نقصان بھی ہے۔

قرآن پاک میں ہے: وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۷۷) (پ 20، القصص:77) ترجمہ: اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ، ہے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہی کرتا۔

غلط مشورہ دینا بھی فساد کا ایک ذریعہ ہے جو انسانوں کے درمیان تعلقات کو بگاڑتا ہے غلط مشورہ دینا قرآن کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ہمیں ہمیشہ امانتداری، دینداری اور حق گوئی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، غلط مشورہ دینے اور دھوکہ دہی کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں، چنانچہ رسول ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6578)

غلط مشورہ دینا بھی ایک قسم کا ظلم ہے، جو مسلمان کے حقوق کے خلاف ہے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ، مشورہ دینا ایک ذمہ داری اور امانت ہے غلط مشورہ دینا نہ صرف گناہ ہے بلکہ خیرخواہی، امانتداری اور اسلامی بھائی چارے کے اصولوں کے خلاف ہے مسلمان کو ہمیشہ سچائی اور دیانت داری کے ساتھ مشورہ دینا چائیے۔

حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا ! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)

پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے غلط مشورے نے فرعون کو دعوتِ ایمان سے محروم کرکے ہمیشہ کے لیے عذاب نار کا مستحق کر دیا فرعون نے ہامان کو اپنا خیرخواہ سمجھ کر مشورہ مانگا لیکن اس نے فرعون کو انسان نہیں بلکہ رب ہونے کا دعویدار ٹھہرایا جس کے سبب وہ بھی اس کے مشورے کو قبول کرکے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو گیا اور اللہ پاک نے اسے دنیا میں عبرت کا نشان بنا دیا۔

لہٰذا جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہیے کہ درست مشورہ دیں ورنہ خیانت کرنے والا ٹھہرے گا، فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکا خائن ہے خیانت صرف مال میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

اللہ پاک ہمیں غلط مشورے دینے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا ! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)

غلط مشورہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ زندگی میں انسان کو مختلف مراحل پر دوسروں سے مشورہ لینا پڑتا ہے۔ مشورہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو صحیح و غلط میں فرق کا شعور دیتا ہے لیکن اگر یہ مشورہ غلط ہو تو یہ انسان کو مشکلات اور ناکامی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن و حدیث میں اچھے مشورے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور غلط مشورے سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 95)

جس سے مشورہ لیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خیانت کرنے والا ٹھہرے گا، ایک اور مقام پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو مشورہ دینے والا پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی بلکہ راز، عزت، مشورے میں بھی ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

غلط مشورے کی وجوہات: خودغرضی،ناسمجھی، حسد، بغض، کینہ۔

مشورہ کس سے کیا جائے؟ ہر کسی سے مشورہ لینا عقلمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے،جیسے کہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی کپڑا فروخت سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑا فروخت سے کوئی طب کے بارے میں مشورہ کرے گا چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیرخواہ ہوں، اس کے فوائد آپ خود ملاحظہ کریں گے۔ ان شاء اللہ

اللہ ہمیں صحیح مشورہ لینے اور دینے کی تو فیق عطا فرمائے آمین۔

مشورہ کا معنی کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا ہے۔ جب کوئی اہم کام در پیش آئے تو اس وقت مشورہ لینا اچھا ہے، کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔ (صراط الجنان، 1/96، 97)

غلط مشورہ دینے کا حکم: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی سے کوئی مشورہ مانگتے ہیں اور وہ جان بوجھ کر ہمیں غلط مشورہ دیتا ہے۔ کسی مسلمان کا نقصان چاہنا اور جان بوجھ کر اسے غلط مشورہ دینا ناجائز و گناہ ہے اسے شخص کو حدیث مبارکہ میں خائن ( خیانت کرنے والا) کہا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئے دے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس سے خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

مفسر شہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ کرے اور وہ دانستہ (جان بوجھ) غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر ( مشورہ دینے والا) پکا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہو جاتا ہے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو وہ خیانت کرنے والا کہلائے گا۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

اب ہمیں دیکھنا بھی چاہیے کہ ہم کس سے مشورہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں سے بھی مشورہ نہیں لینا چاہئے جو ہمیشہ ہمارا نقصان ہی چاہتے ہوں۔

اگر کوئی مخلص شخص کوئی مشورہ دے پھر وہ مشورہ کارآمد ثابت نہ ہو تو اس شخص کو ملامت نہیں کرنا چاہیے کہ منقول ہے کہ اگر تمہارا دوست کوئی مشورہ دے اور اس کا انجام اچھا نہ ہو تو اس بات کو اسے ملامت کرنے کا سبب نہ بنا لو اور اس سے یہ نہ کہو کہ تم نے ایسا کیا اور تم نے مجھے مشورہ دیا وغیرہ۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 49)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور مسلمانوں کی خیرخواہی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

مشورہ کے معنی ہیں: کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورے کے بہت سے فوائد و فضائل ہیں مگر یہ اس وقت ہے کہ جب مشورہ دینے والا اور مشورہ دونوں درست ہوں جہاں اچھا مشورہ نہایت ہی مفید اور کار آمد ثابت ہوتا ہے وہیں غلط مشورہ انتہائی مضر اثرات کا باعث بنتا ہے اور اسلام میں بھی غلط مشورہ دینے والوں کی مذمت فرمائی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفی ﷺ ہے: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جب کہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس سے خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر( یعنی مشورہ دینے والا) پکا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراة المناجیح، 1/212)

قرآن پاک میں اللہ پاک ایمان والوں کو ندا فرما کر حکم ارشاد فرما رہا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) (پ 9، الانفال: 27) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو۔

کسی مسلمان کا نقصان چاہنا اور اسے جان بوجھ کر غلط مشورہ دینا ناجائز ہو گناہ ہے

غلط مشورے کی تباہى: بعض اوقات غلط مشورہ انسان کی دنیا و آخرت کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں درست مشورہ دینے اور صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرنے کی سمجھ عطا فرمائے۔


غلط مشورہ کسی بھی انسان کو کسی طرح کے نقصان سے دو چار کر سکتا ہے اس لیے مشورہ دینے اور لینے دونوں میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے مشورہ دینےوالے کو بھی مشورہ دینے سے پہلے تمام حالات،واقعات اور تمام صورتحال کا جائزہ لے کر صحیح مشورہ دینا چاہیے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ اسلام کے بعد حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا تو انہوں نے اسے اسلام کی یہ دعوت قبول کرنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنے وزیر ہامان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو ہامان نے فرعون کو جواب دیا کہ آپ اگر اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو آپ تو خدا ہیں پھر آپ محکوم بن جائیں گے اور آپ کی یہ بادشاہت اور طاقت ختم ہو جائے گی لہذا آپ ایسا ہرگز نہیں کیجئے گا، اس طرح آپ حضرت موسی کے زیر اثر آجائیں گے اور وہ جو چاہیں گے آپ سے کروائیں گے اور ہم سب محکوم ہوتے چلے جائیں گے اس طرح آپ کو حضرت موسی علیہ السلام کی ہر بات ماننی پڑے گی یہ بات فرعون کی سمجھ میں آگئی اور اس نے حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ماننے کے بجائے ہامان کے مشورے کو پسند کیا اور اس پر عمل کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کی اس دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کا خمیازہ اس کو دنیا اور آخرت کی بربادی کی شکل میں بھگتنا پڑا اور وہ اپنے وزیر کا یہ مشورہ قبول کرنے کی وجہ سے دنیا میں بھی ناکام رہا اور سمندر میں غرق ہو گیا اور آخرت میں بھی کچھ حاصل نہیں کر سکے گا اور جہنم میں داخل ہو جائے گا۔

غلط مشورے کی یہ سب سے بڑی مثال ہے لہذا مشورہ دینا اور لینا یہ دونوں ہی اہم کام ہیں جس سے انجام دینے سے پہلے نہایت سمجھداری اور عقلمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مشورہ ایک امانت ہے جسے پورے اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور اس میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے کہ بغیر سوچے سمجھے اور کسی کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر کسی کو مشورہ دے دیا جائے جو اس کے لیے مشکلات کا سبب بنے یہ بہت ہی غلط بات ہے اور اللہ کی ناراضگی کا سبب بھی ہےصحیح مشورہ دینا حقوق العباد میں شامل ہے یعنی اگر آپ کو کسی نے اس قابل سمجھا ہے کہ وہ آپ سے مشورہ طلب کر رہا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کی مدد کریں اور اس کو صحیح مشورہ دیں اگر آپ سے کوئی مشورہ طلب کرتا ہے اور آپ اس کے اہل نہیں ہیں تو آپ اس کو منع کر دیجیے اور اس کو بتائیے کہ کہاں سے وہ صحیح مشورہ حاصل کر سکتا ہے اور اگر آپ اس کے اہل ہیں تو جان بوجھ کر کسی کو غلط مشورہ نہ دیجیے کیونکہ یہ امانت میں خیانت ہے۔ اس بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس سے کسی مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے جان بوجھ کر اسے غلط مشورہ دیا تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

جو چیز آپ کو معلوم ہے اگر آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں تو پوچھنے والے کو صحیح معلومات فراہم کیجئے اور اگر نہیں جانتے تو اپنے آپ کو لاعلم ظاہر کر دیجئے تاکہ آپ سے مشورہ طلب کرنے والا کسی نقصان سے محفوظ رہ سکے۔

مشورہ دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پورے اخلاص کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کو صحیح مشورہ دے اور اس کے نفع اور نقصان کو واضح کرے اور تمام پہلوؤں پر پورے اخلاص کے ساتھ تفصیل سے آگاہ کرے اور اپنے مفادات کی خاطر کسی دوسرے کو غلط مشورہ نہ دے کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دینے کے برابر ہے جس کی اسلام میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے: جب کوئی مسلمان تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

اگر آپ سے کوئی شخص مشورہ کر رہا ہے اور آپ کے مشورے کے نتیجے میں آپ کو یہ امید ہے کہ وہ کامیابی حاصل کر لے گا تو آپ اس سے حسد کا شکار نہ ہوں بلکہ اس کو پورے خلوص کے ساتھ صحیح مشورہ دیجئے کیونکہ حسد کے بارے میں حدیث مبارک ہے: یہ آپ کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔

غلط مشورہ کا مطلب ہے ایسا مشورہ جو درست نہ ہو یا جس پر عمل کرنے سے نقصان ہو سکتا ہو۔ یہ مشورہ نادانستہ یا دانستہ طور پر دیا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی مشورہ کے بارے میں حکم دیا ہے: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اس میں ان کی دلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اس سے نفع اٹھاتی رہے گی،پھرجب مشورے کے بعد آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں ا س چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو۔

مشورہ کے معنی: مشورہ کے معنی ہیں کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورہ لینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ مشورے کے بعد جب آپ ﷺ کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلیں تو اسی پر عمل کریں۔

حدیث مبارکہ میں اچھے مشورے کی اہمیت اور غلط مشورے سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 95)

یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ دین اسلام میں خیرخواہی کا تصور بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور کسی کو مشورہ دیتے وقت دیانت داری اور خلوص کا ہونا ضروری ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مسلم، ص 64، حدیث: 283)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ کسی کو دھوکہ دینا، چاہے وہ مشورے کی صورت میں ہو یا کسی اور طریقے سے، ایک سنگین گناہ ہے اور اس کا تعلق ایمان کی کمزوری سے ہے۔

دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ اور باہمی لین دین کے لیے ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے ہر کسی کو مشورے کی ضرورت ہوتی ہے اگر کوئی شخص کاروبار کرے تو بھی اسے اچھا کاروبار چلانے کے لیے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے اگر کوئی شادی بیاہ کا معاملہ ہو تو بھی مشورہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے الغرض ہر کام مشورے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لیے بہتر ہے کہ ہر کام سے پہلے مشورہ ضرور کر لیا جائے اور جس سے مشورہ لیا جائے اس کو بھی چاہیے کہ اچھا اور مناسب مشورہ دے غلط مشورہ ہرگز نہ دے اسی طرح ایک اچھے مشورے سے انسان کو اپنے مسائل کا حل مل جاتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی تین قسم کے ہیں ایک وہ آدمی جو معاملات میں اپنی مضبوط اور مستقل رائے رکھتا ہے دوسرا وہ جس کی اپنی کوئی مستقل رائے نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل رائے والے سے مشورہ کر کے اپنے معاملات چلاتا ہے تیسرا وہ آدمی جس کی نہ اپنی رائے مضبوط ہوتی ہے نہ وہ کسی سے مشورہ کرتا ہے ایسا شخص پریشان رہتا ہے۔

مشورہ اگر کوئی مانگے تو اسے منع نہ کرے اور اگر جان بوجھ کر کوئی غلط مشورہ دیں تو وہ گنہگار ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے: اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ خیانت کرنے والا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

مشورہ لینے کے متعلق آقا ﷺ نے فرمایا: جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

مشورہ اس لیے بھی کرنا ضروری ہے کہ مشورہ کرنا سنت ہے جیسے کہ میرے پیارے آقا ﷺ بھی اپنے ہر معاملے میں اپنی ازواج مطہرات اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے جب آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمانے کا ارادہ کیا تو بھی اس کے لیے مشورہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کیا۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے اور جس نے اپنے مسلمان بھائی کو مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے بھلائی اور بہتری اس کے برعکس میں ہے اس کے علاوہ کسی صورت میں ہے تو اس نے خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

مشورہ کرنے والا شخص کبھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ جو مشورہ کر لیتا ہے اگر مشورہ دینے والا بہترین خیر خواہ ہو تو مشورہ لینے والا اگرچہ اپنے مقصد تک نہ پہنچ پائے لیکن وہ ناکام نہیں ہوتا بلکہ خسارے سے بچ جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو بندہ مشورہ لے وہ کبھی بدبخت نہیں ہوگا اور جو بندہ اپنے رائے کو حرف آخر سمجھے وہ کبھی نیک بخت نہیں ہوتا۔

جب ہم کوئی تاریخی واقعہ پڑھتے ہیں یا کسی کی سلطنت کو دیکھتے ہیں تو جو بات سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ جتنی بھی فتوحات ہوئی یا جس کو بہت بڑی سلطنت ملی وہ مشورہ کرنے سے ہی پایا تکمیل تک پہنچا ہے جیسا کہ جنگ بدر میں بھی آقا ﷺ کے باہم مشورے سے فتح ہوئی۔

آقا ﷺ نے فرمایا: مشورہ کرنے والا نا مراد نہیں ہوتا۔

غلط مشورہ دینا حرام ہے غصے یا حسد میں آ کر دانستہ طور پر غلط مشورہ نہ دیا جائے، مشورہ دینے والے کا علم والا ہونا ضروری ہے جاہل سے مشورہ نہ مانگا جائے کہ کام سلجھنےکی بجائے بگڑ سکتا ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مشورہ کرنا چاہتا ہے اگر آپ سے کوئی مشورہ لینا چاہتا ہے تو آپ خیرخواہانہ انداز سے بہتر طریقے سے جو بات آپ کو درست معلوم ہو اسی کا مشورہ دیں گے کیونکہ جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت ہے اور وہ اپنے آپ کو امانت داری کا مظاہرہ کرے۔ جیسا کسی کا تعلیم کا مسئلہ ہے کسی کی جاب کا مسئلہ ہے کسی کے کاروبار کا مسئلہ ہے آپ کو معلوم ہے کہ تعلیم کہاں اچھی ہوتی ہے مگر آپ اس کا نقصان کرنے کے لیے کوئی غلط مشورہ اس کو دے رہے ہیں تو یہ خیانت ہے یہ بری بات ہے اسلامی آداب کے خلاف ہیں انسانی مروت اور شرافت کے خلاف ہے آپ کو معلوم ہے جو صحیح اور درست رائے ہے وہ اس کو دیجئے اور اگر نہیں دینا چاہتے تو اس کو انکار کر دیں یا معذرت کر دیں مگر جھوٹی بات مت بتائیے کل جب آپ کو ضرورت پڑے گی تو کوئی آپ کی مدد بھی ایسے ہی کرے گا، کیونکہ یہ مکافات عمل ہے جیسے کرو ویسے ہی پاؤ! آپ دوسروں کے ساتھ جو خیر ہوا ہی کریں گے اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو آپ کے حق میں خیرخواہ بن جائے گا اسی طرح اگر کہیں کوئی رشتے کا مسئلہ ہے بیٹے کا بیٹی کا اور وہ آپ سے معلومات لے رہا ہے آپ جھوٹی بتائیں گے اور وہ اس کی بنیاد پر رشتہ کر لے تو بعد میں رشتے خراب ہو جائیں کتنا نقصان ہے ماں باپ کے لیے کیا قیامت گزر رہی ہوگی، مثلا علیحدگی ہو جائے طلاق ہو جائے یا اس طرح کے کئی اور واقعات ہو جائیں اس لیے اگر کوئی آپ سے مشورہ کرے دیانتداری سے امانت داری سے صحیح صحیح مشورہ دیں۔

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے تو اس نے اس سے خیانت کی۔(ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

کسی کو برباد کرنے کی سوچ ہی آپ کی بربادی کے لیے کافی ہے! میرے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831) تمہیں کوئی بندہ اپنے گھر کی ذاتی بات بتائے رائے لے رہا ہے تم اسے نشر کر رہے ہو آگے بیان کر رہے ہو کبھی اپنے دوستوں کا راز ادھر ادھر نہ کرو۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عام اور ریاست سے متعلق مشوروں کی جگہ مسجد ہی ہوتی تھی وہیں آپ کی مجلس تھی وہیں مشورے بھی ہوتے تھے اور فیصلے بھی ہوتے تھے لہذا یہ کہنا درست ہے کہ مشورے کا عمل مساجد میں ہونا تھا لیکن خفیہ نوعیت کے مشورے آپ خاص جگہوں میں بھی فرماتے تھے، جیسا کہ ہجرت کے موقع پر آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر جا کر ان سے علیحدگی میں بات کی۔

مشورہ کس سے کیا جائے ہر کسی سے مشورہ لینا دشمنی نہیں اور نہ کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ ہی کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا ایت یعنی اس پر قیاس کر لیجئے چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجیے جو تجربہ کار عقلمند تقوی والے خیرخواہی والے اور بے غرض ہوں اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ ان شاء اللہ

الله نے اپنے محبوب کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ اس میں ان کی دلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اس سے نفع اٹھاتی رہے گی۔

عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا تو کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی، یقینا یہ بھی خیانت ہی ہے لیکن خیانت کا شرعی مفہوم بڑا وسیع ہے، چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی راز، عزت مشورہ تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجيح، 1/212)

احادیث مبارکہ میں خیانت کے کئی انداز بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ مشیر پکا خائن یعنی خیانت کرنے والا ہے۔ (مراة المناجيح، 1/212)

جس طرح اچھا مشورہ دینے کی برکتیں اور فضایل ہیں اسی طرح غلط مشورہ دینا بھی وبال کا باعث ہے کیونکہ جب کوئی کسی سے مشورہ طلب کرتا ہے تو وہ اسکو اپنا قریبی سمجھ کر اور یہ سوچ کر مشورہ کرتا ہے کہ جس سے مشورہ کر رہا ہوں وہ میری اچھی بات کی طرف رہنمائی کرے گا تو مشورہ بھی ایک امانت کی طرح ہے تو امانت کی حفاظت کا حکم آیا ہے ایک انسان ہمیں اپنی کسی بات میں ایک طرح ساتھی بھی بنا رہا ہے تو ہمیں دوسروں کو ہمیشہ درست مشورہ ہی دینا چاہیے۔

غلط مشورہ دینے کی مثال: مثال کے طور پر ایک شحص نے آپ سے پوچھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں فلاں جگہ نوکری کروں وہاں تنحواہ زیادہ ہے لیکن کمائی کچھ حلال نہیں ہے لیکن جہاں نوکری کر رہا ہوں وہاں کمائی تھوڑی ہے لیکن حلال کی ہے تو جس سے مشورہ کیا جا رہا ہے وہ اس کو حرام روزی کی تباہ کاری سے آگاہ کرتے ہوئے یہی مشورہ دے کہ وہ حلال کی کمائی پر ہی رہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو درست مشورہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین