حضور اکرم، نور مجسم، شاہِ بنی آدم ﷺ کی حسنین کریمین، سیدا
شبابِ اہلِ الجنۃ ،سبطینِ رسول،ریحانتینِ رسول ، راکبینِ دوشِ مصطفےٰ سے محبت مثالی
تھی۔آقائے شہزادگانِ خیر النساء سیدہ فاطمۃ الزہرا ﷺ و رضی اللہ عنہم نے حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما کا خود عقیقہ فرمایا۔(مصنف عبد الرزاق،4/254،حدیث: 7993)جبکہ
عموماً والدین یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔پھر ان دونوں پاکباز ہستیوں کو گھٹی بھی
آپ نے دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)پھر جن کے بارے حضور فرمائیں کہ ”اے اللہ!میں
ان سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان سے محبت کر “ان کی شان کا کوئی احاطہ کر ہی نہیں
سکتا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبیِ
اکرم،نورِ مجسّم ﷺ کی خدمت میں گیا تو نبیِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ اس طرح تشریف لائے
کہ آپ کسی چیز کو گود میں لیے ہوئے تھے، مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے، جب میں
اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تومیں نے پوچھا:یہ کیا ہے جو آپ گود میں لیے ہوئے ہیں؟ حضور
ﷺ نے اسے کھولا تو حَسن و حُسین رضی اللہ عنہما آپ کی آغوش میں تھے،پھر آپ نے اِرْشاد فرمایا:یہ دونوں میرے بیٹے ،میری
بیٹی کے بیٹے ہیں۔الٰہی! میں ان دونوں سے مَحَبَّت کرتا ہوں تُو بھی ان سے
مَحَبَّت کر اور جو اِن سے مَحَبَّت کرے اس سے بھی مَحَبَّت کر! ۔(1)
حضور ﷺ نے ان سے محبت کو اپنی ذات سے محبت کرنا قرار دیا جیسا
کہ ابنِ ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان
دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی
اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(2)
اللہ اکبر ! اندازہ لگائیے کہ حضور کے نزدیک امام حسن و حسین
رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ کس قدر
بلند اور آپ کی ان سے محبت کتنی زیادہ ہے!
حضور ﷺ آپ سے محبت کا جید صحابہ کرام کے سامنے بھی اظہار
فرماتے تھے جیسا کہ ایک دفعہ امیرُ المؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی
اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی
شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور
سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔(3)
پھر جنتی جوانوں کے سردار کی شان دیکھئے کہ سرکار مدینہ ﷺ
سے پوچھا گیا کہ أی اھل بیتک احب الیک کہ آپ کو اہلِ
بیت میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو ارشاد فرمایا:حسن اور حسین رضی اللہ عنہما۔حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ، پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔
(4)
کیسا خوبصورت اور
دلنشین انداز ہے!حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث
کے تحت فرماتے ہیں:حضور انہیں کیوں نہ سُونگھتے وہ دونوں تو حضور ﷺ کے پھول تھے
،پھول سُونگھے ہی جاتے ہیں،انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے
تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سُونگھنا، ان سے پیارکرنا،انہیں لپٹانا چمٹا
نا سنتِ رسول ہے۔(5)
حضور ﷺ نے انہیں اپنا پھول قرار دیا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیثِ
پاک ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: هُمَا رَيْحَانَتَايَ
مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین
دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔(6)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں محبتِ حسنین کریمین سے
لبریز ، خوبصورت اشعار فرمائے:
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
کیا
بات رضاؔ اُس چَمَنِسْتانِ کرم کی
زَہرا
ہے کلی جس میں حُسَیْن اور حَسَن پھُول
(1)(تاریخ الخلفاء، ص 149روضۃ الشهداء (مترجم) ، 1 /396)
(2)(مسند بزار،
2/315، حدیث:743)(مستدرک، 4/154، 155، حدیث:4826)
(3)(ترمذی ،5/427،حدیث:3794)
(4) (ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
(5)(ترمذی ،5/432، حدیث: 3809)
(6) (ترمذی، 5/428، حدیث:3797)
(7)(مراۃ المناجیح،8/477)