جب ایک لڑکی
شادی کے بعد سسرال جاتی ہے تو اس پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں اسے اس
نئے ماحول میں ڈھلنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن بعض جگہ اتنی زیادہ ذمہ
داریاں ہوتی ہیں کہ اسے یہ وقت بہت کم ملتا ہے جس کے باعث وہ تمام ذمہ داریوں کو
بخوبی انجام نہیں دے پاتی لیکن اس میں زیادہ بڑا کردار سسرال والوں کو ادا کرنا
چاہیے کہ وہ اس کے ہر غلطی کو نظر انداز کریں اور اس کو سمجھانے کی کوشش کریں اور
اس سے محبت اور ہمدردی کا رویہ رکھیں تاکہ اس کو اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں
آسانی ہو اور وہ ہر کام اپنے سسرال والوں کی مرضی کے مطابق کرنے کے قابل ہو سکے۔
نئی آنے والی
لڑکی پر جب بلاوجہ اور بے جا تنقید کی جاتی ہے تو اسے اپنی جگہ بنانے کے لیے
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ باسانی کچھ عرصے میں
سسرال والوں کی عادتوں کو سمجھ کر ان کے مطابق کام کرنے کے قابل ہو سکتی ہے لیکن
یہ بےجا تنقید،طنز یہ رویہ ساری چیزیں اس کو ایڈجسٹ ہونے کے لیے مشکلات پیدا کرتی
ہیں اس میں زیادہ بڑا کردار ساس اور غیر شادی شدہ نند ہیں اگر ساتھ میں موجود ہیں
یا اگر شادی شدہ بھی ہیں تو زیادہ ترکردار انہیں لوگوں کا ہوتا ہے اگر وہ اس کے
ساتھ تعاون کریں اور محبت سے پیش آئیں تو شاید نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
شادی کے کچھ
عرصے بعد ہی تمام ذمہ داریاں بہو پر ڈال دی جاتی ہیں حالانکہ بہو کے آنے سے پہلے
بھی تو یہ سارے کام ہو رہے ہوتے ہیں تو اب ایک دم ساری ذمہ داریاں بہو پر ڈال دینا
مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے آپ کے گھر کے طریقے سمجھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے
آپ اس کو آہستہ آہستہ اگر ذمہ داری دیں تو شاید وہ یہ سارے کام بخوبی کر سکے اور
اسے یہ کام بوجھ بھی محسوس نہیں ہوں گے لیکن ایک دم ساری ذمہ داریاں ڈال دینا اور
پھر اس پر طنز کرنا، اس کا مذاق اڑانا یہ غیر مناسب رویہ ہے اور پھر اس کے آنے سے
پہلے جب نندیں اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہوتی ہیں جو جو کام وہ کر رہی ہوتی ہیں
تو انہیں چاہیے کہ وہ بہو کے ساتھ یہ سارے
کام کروائیں اور وہ ایک دم سارے کام چھوڑ کر نہ بیٹھیں تاکہ بہو کے دل میں بھی
نندوں کے لیے جگہ پیدا ہو اور اس کو کام سمجھنے میں بھی آسانی ہو۔
لیکن ساس، بہو
کو لا کر یہ سمجھتی ہیں کہ اب پورے گھر کے کام کی ذمہ داری صرف بہو پر ہے اور اس
سے اگر کوئی غلطی ہو گئی تو یہ برداشت نہیں ہوتاغلطی کی گنجائش تو کوئی ہوتی ہی
نہیں ہے لہذا وہ کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتی ہے اور اگر کر دی تو پھر اس کی شکایتیں
اس کے شوہر سے کرنا اس کا مذاق اڑانا اس پر طنز کرنا کہ تم اپنے گھر سے کچھ سیکھ
کر نہیں آئیں یہ ساری باتیں بہو کے دل میں ساس کی برائی پیدا کر دیتی ہیں جس کی
وجہ سے گھر کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے اس کے بجائے ساس بہو کے ساتھ مل کر کام
کروائے اور جو شادی شدہ نندیں ہیں اگر مہمان آتی ہیں ان سے بھی کہے کہ تم بہو کے
ساتھ کام میں ہاتھ بٹاؤ مہمان بن کر نہ بیٹھو اور جو گھر میں غیر شادی شدہ نندیں
ہیں اگر موجود ہیں تو وہ بھی اس کا ساتھ دیں اور ہر کام میں اس کی رہنمائی کریں
کیونکہ ہر گھر کا ماحول، کام کرنے کا وقت، کام کرنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔
لڑکی جب دوسرے
گھر جاتی ہے تو وہاں کے طریقے سے کھانا پکانا، وہاں کے وقت پہ کھانا پکانا اور
دوسرے کام کا جو وقت ہے ان کو اسی وقت پر ادا کرنا ان سب چیزوں کے لیے اسے وقت
درکار ہوتا ہے ان سب کاموں کو سمجھنے کے لیے اسے جو وقت درکار ہوتا ہے ساس کو
چاہیے کہ وہ اس کو وہ وقت دیں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس گھر میں آتی ہے تو ان
لوگوں کی یادیں بھی اس کے ذہن میں ہوتی ہیں وہ اگر آپ کے ساتھ کام کر رہی ہے تو اس
کے دل میں اپنے گھر کی یادیں بھی موجود ہیں اس کے ان جذبات کا بھی خیال رکھا جائے
کیونکہ اس کو ابھی اپنا گھر چھوڑے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے
دل میں ابھی اپنے گھر کی یادیں موجود ہیں جو کہ ہر وقت اس کے ذہن میں رہتی ہیں اگر
یہاں اس کو محبت بھرا رویہ نہیں ملے گا تو وہ اپنے میکے کو ہی ترجیح دے گی اور
وہاں جانے کے لیے اس کا دل چاہے گا۔
سسرال والوں
کو چاہیے کہ اس کے میکے جانے کا بھی خیال رکھیں اور ایسے وقت میں کہ جب اسے اپنے
میکے جانا ہو کوئی کام یا کوئی ذمہ داری اس کو نہ دیں کیونکہ گھر کے کام کرنا یا
ذمہ داری اٹھانا گھر والوں کی سسرال والوں کی ذمہ داری اٹھانا بہو کی ذمہ داری
نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہمارا مذہب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت گھر کے
سارے کام کرنے کے ساتھ ساتھ سسرال والوں کی ذمہ داری بھی اٹھائے عورت کو پکا پکایا
کھانا فراہم کرنا اس کے شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس پر یہ ذمہ داری نہیں ہوتی
اور وہ اس چیز کی پابند نہیں ہے کہ وہ اپنے ساس یا نندوں یا سسر کو یا دیور جیٹھ
جو بھی گھر میں موجود ہیں ان کے آرام کا خیال رکھے اور ہر طرح کے ان کے کام کرے
اور ان کو کھانا پکا کر فراہم کرے یہ عورت کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے یہ ایک بہو کی
ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ تو اس گھر میں رہنے والے لوگوں کی ہی ذمہ داری ہے اگر وہ
آپ کے ساتھ کام کروا لیتی ہے اپنی ساس کے ساتھ یا اپنی نند کے ساتھ کچن کے کاموں
میں یا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہے تو یہ اس کی خوش اخلاقی ہے ذمہ داری نہیں
ہے۔
لیکن ہمارے
ہاں بہو کو شادی کے بعد گھر کی نوکرانی سمجھا جاتا ہے اور اس پر گھر کے تمام کام
اس کے ذمے لگا دیئے جاتے ہیں اور پھر اس میں نقص نکالے جاتے ہیں کسی کا مذاق اڑانا
اس کے کام میں نقص نکالنا تو ہمارے مذہب میں ویسے بھی منع ہے اور پھر بہو آپ کے
گھر کا فرد ہے آپ کے گھر کی عزت ہے جب آپ اس کے ساتھ یہ رویہ رکھیں گی اس کے کاموں
میں نقص نکالیں گی اور اس سے محبت کا رویہ نہیں رکھیں گی تو اس کے دل میں کس طرح
ساس یا نند کے لیے جگہ پیدا ہوگی۔
کچھ عرصے بعد
جب وہ اولاد کی نعمت حاصل کر لیتی ہے تو اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں سسرال
والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اس کو اسی طرح نوکرانی سمجھتے ہیں جبکہ
اس وقت میں اس کے بچے کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ سسرال والے اس سے اسی طرح
کام کی اور اسی طرح تمام باتوں کی توقع کرتے ہیں جس طرح وہ بچے کی پیدائش سے پہلے
کرتی تھی حالانکہ اب اسے اپنے بچے کو بھی وقت دینا ہوتا ہے لہذا ذمہ داریوں میں
گھر کے کاموں میں وہ اس طرح سے ہاتھ نہیں بٹا سکتی اس طرح سے ادا نہیں کر سکتی جس
طرح وہ پہلے کرتی تھی۔
لہذا اس موقع
پر بھی سسرال والوں کو اس کے ساتھ مناسب رویہ رکھتے ہوئے اس کا خیال رکھنا چاہیے
کیونکہ اب خود اسے بھی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مناسب غذا کی ضرورت ہوتی ہے
کیونکہ اسے ایک بچے کی پرورش کرنی ہوتی ہے
اگر سسرال والے اس کے ساتھ بہتر رویہ رکھیں گے تو وہ اپنے بچے کی بہتر پرورش کر
سکے گی کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعد راتوں کو جاگنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر بچے رات
میں تنگ کرتے ہیں تو وہ وقت پر گھر کے کام ادا نہیں کر سکتی لیکن سسرال والے اس سے
اسی وقت پر اور اسی انداز میں کام کی جو توقع کرتے ہیں وہ انہیں نہیں کرنی چاہیے
بلکہ اس وقت اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہر لڑکی کے کاندھوں
پر نہ صرف سسرال والوں کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں بلکہ اس کے لیے اس کے والدین اس کے
بہن بھائی وہ سب بھی اس کے ذہن میں رہتے ہیں اور ان کی پریشانیاں ان کے مسئلے
مسائل ان سب کی بھی اس کو فکر ہوتی ہے ہر لڑکی کے ذہن میں اپنے میکے والوں کی بھی
فکر ہوتی ہے اپنے سسرال والوں کی بھی فکر ہوتی ہے کہ ان کو کوئی بات بری نہ لگ
جائے ان کو ہر وقت ہر کام وقت پر چاہیے اپنے شوہر کی بھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان
سب کی ذمہ داریوں میں وہ اپنے شوہر کو نظر انداز نہ کر دے اسے اس کے بھی ہر کام کا
خیال رکھنا پڑتا ہے اس کی ہر طرح کی مرضی اور خوشی کا خیال رکھنا پڑتا ہے ناراضگی
کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور پھر اولاد کی بھی ہر خوشی اور ناراضگی اور تمام ذمہ
داریوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
لہذا ہر لڑکی
کے کاندھوں پر شادی کے بعد یہ ساری ذمہ داریاں اور ان سب کی فکر لاحق ہوتی ہیں اور
وہ ہر لمحہ ان سب کو خوش کرنے میں لگی رہتی ہے اگر اولاد کو کوئی تکلیف ہے طبیعت
خراب ہے تو وہ ذہنی اذیت سے گزر رہی ہوتی ہے ساتھ میں لوگوں کے طعنےبھی سن رہی
ہوتی ہے کہ اولاد کا خیال نہیں رکھا جاتا کس طرح لاپرواہی ہو گئی،اگر شوہر کی
طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو اسے اس کی بھی ساری ذمہ داریاں اٹھانی ہوتی ہیں اور اس
بارے میں بھی اس کو ہر طرح سے فکر لاحق ہوتی ہے اگر اس کے والدین میں سے کسی
کو کوئی پریشانی ہے تو ان سب کا بھی اس کو
خیال رکھنا پڑتا ہے اپنے بہن بھائیوں کی بھی ہر تکلیف کا،ہر خوشی کا اس کو خیال
رکھنا پڑتا ہے۔
اور ساتھ ساتھ
سسرال والوں کی بھی ہر خوشی اور تکلیف کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ساس سسر کو یا
نندوں کو اس کی جب جب ضرورت ہے وہ ہر وقت ان کے کام کر سکے حالانکہ جب ان کی اپنی
بیٹی سسرال میں یہی سارے کام انجام دے رہی ہوتی ہے تو وہ اس کے سسرال والوں کو بہت
برا سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے اور ہماری بیٹی کو
نوکر بنا کر رکھا گیا ہے جب کہ وہ اپنے بہو کے ساتھ بھی یہی سارے کام کر رہے ہوتے
ہیں تو انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی دوسرے کے ساتھ بھی یہی سب کچھ
کر رہے ہیں تو ہماری بیٹی کو بھی یہی سب برداشت کرنا پڑے گا ان سب باتوں سے آنکھیں
بند کیے اپنی بہو کو نوکروں کی طرح سے ہر طرح کی ذمہ داری دینا مناسب نہیں ہے۔
ہمیں اپنے پیارے نبی ﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ تم دوسرے کے لیے بھی وہی
پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔
تو جب ہم اپنی
بیٹی کے لیے اس طرح کی ذمہ داریاں اور یہ سارے کام پسند نہیں کرتے تو پھر ہم دوسرے
کی بیٹی پر یہ سارے کام اور یہ ذمہ داریاں کیوں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر بلاوجہ
تنقید بھی کرتے ہیں اور نہ صرف اس پر بلکہ اس کے میکے والوں پر بھی تنقید کی جاتی
ہے اور ان کو اس طرح سے باتیں سنائی جاتی ہیں جیسے وہ بہت ہی گئے گزرے لوگ ہیں اور
انہوں نے اپنی بیٹی کی پرورش صحیح نہیں کی ہے ان سب باتوں کا اثر جب لڑکی کے دل پر
ہوتا ہے اور وہ سنتی ہے تو اس کے دل میں یہ ساری باتیں سننے کے بعد کیا گزرتی ہوگی
یہ کبھی کوئی نہیں سوچتا یہ حضور ﷺ اس فرمان کی بھی نافرمانی ہے کہ آپ کسی کا دل
نہ دکھائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ حجرات میں فرماتا ہے کہ آپ کسی پر طعنہ زنی
نہ کریں کسی کو برے القاب سے نہ پکاریں جبکہ سسرال والےبہو کو ہر طرح کے طعنے اور
برے القابات سے نوازتے ہیں۔
ان ساری باتوں
کے بعد جب گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی بہو ہی ٹھہرائی جاتی ہے
کہ اس کے آنے کی وجہ سے ہمارے گھر کا ماحول خراب ہوا ہے اپنی غلطیوں پر نظر نہیں
رکھی جاتی کہ ہم بہو کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سب ماحول خراب
ہوا ہے لہذا اپنی تمام عادتوں پر اپنے تمام باتوں پر اپنے ہر رویے پر نظر رکھنے کی
ضرورت ہے اور اس کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے جب ہی گھر کا ماحول بہتر ہو سکتا ہے بہو
کو نوکرانی بنا کر گھر کا ماحول بہتر نہیں ہو سکتا بہو کی بھی خوشی کا،اس کے ہر
تکلیف کا خیال رکھا جانا ضروری ہے جب تک سسرال والے اس کی خوشی کا اس کی ہر تکلیف
کا خیال نہیں رکھیں گے گھر کا ماحول صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ان تمام چیزوں کی
حقدار ہے وہ اپنا گھر چھوڑ کر جب اس گھر میں آئی ہے تو اس گھر پر اور اس گھر کی
خوشیوں پر اور یہاں سکون سے رہنے پر اس کا پورا حق ہے اور یہ حق اس کو فراہم کرنا
سسرال والوں کی ذمہ داری ہے اگر سسرال والے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہیں تو
وہ کس طرح بہو سے اچھے رویے اور اچھائی کی توقع کر سکتے ہیں۔