مبارک ہو! مبارک ہو! کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، یہ کونسی خوشی ہے؟ باپ سے کہا جاتا ہے: مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے، گھر میں عید کا سماں خوشیاں ہی خوشیاں۔ سعادت مند باپ پوری زندگی اپنا پیٹ کاٹنا پڑے اسکے باوجود اپنی بیٹی کے ناز اٹھاتا ہے، اس کو آنکھوں پر بٹھاتا ہے، اسکی خواہشات پوری کرتا ہے، ایک وہ دن آتا ہے کہ بچی جوان ہوجاتی ہے باپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بیٹی کا رشتہ کیسا ملے گا، سسرال والے کیسے ہوں گے، آخر کار باپ سوچھ سمجھ کر جانچ پڑتال کرکے بیٹی کو بیاہ دیتا ہے۔

لیکن افسوس! بعض اوقات اسی بیٹی کے ساتھ سسرال میں انتہائی برا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

وہی بیٹی جس کو ناز و محبت سے پالا گیا آج وہ محبتوں کے ملنے کی منتظر رہتی ہے۔ بعض اوقات ساس بہو کے ساتھ برا رویہ اختیار کرتی ہے، اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی، اسکے اتنے کام کرنے کے باوجود کاموں میں تنقیدیں کرتی ہے، اس بہو کے دل کو طعنوں کے تیر سے چھلنی کرتی ہے، وہ نہیں سوچتی کہ اگر اسکی جگہ میری بیٹی ہوتی اور اسکے ساتھ سسرال میں ایسا رویہ اختیار کیا جاتا تو بیٹی کی حالت دیکھ کر میرا کیا حال ہوتا، بلکہ بعض اوقات سسرال والے بہو کو منحوس سمجھتے ہیں اگر بالفرض بہو کے گھر آنے کے بعد گھر مین میت ہو جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو بہو کو منحوس سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 286)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 285، 286)

ساس سسر کو چاہیے کہ بہو کو بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھیں۔جس طرح وہ اپنی بیٹیوں کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں اپنی بہو کی چھوٹی بڑی غلطیوں سے بھی درگزر کریں۔ بہو کو نوکرانی نہ سمجھیں یہ بات نہ بھولیں کہ آپ اپنے گھر میں ایک فرد کو بیاہ کر لائیں ہیں نہ کہ اپنے گھر نوکرانی لائے ہیں۔ بہو بھی ایک انسان ہے اس کو بھی آرام کرنے دیں، اسکے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹائیں۔

بہو بیمار ہوتو اس سے کام نہ کروائیں۔ سارے گھر کا کام بہو پر نہ ڈال دیں بلکہ اس کی ہمت، طاقت، صحت کا بھی خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ جھڑکنے والا، گھورنے والا انداز، نیز اسکو حقیر سمجھنے والا انداز نہ اپنائیں جس طرح عموما نوکروں کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔ بلکہ محبت و شفقت بھرا لہجہ ہو، انداز بھی پیار والا ہو۔ اگر تمام سسرال والے بہو کا ساتھ دینا شروع کردیں تو پھر کیوں بہو ساس کے آگے زبان چلائے گی؟ پھر کیوں بہو کسی کام کا منع کرے گی؟ بلکہ وہ خود آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ کام کرے گی۔

ہاں ضروری نہیں ہر جگہ ساس ظالم ہو یہ ضروری نہیں بلکہ بعض اوقات بہو اپنی ساس پر ظلم کرتی ہے۔ بہو بھی اگر اپنی ساس کو سانس بنالے تو گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات!

اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمانوں کا خیر خواہ بنائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ