عقل اور ذہانت خدا کی طرف سے ہے۔ یہ اس کی طرف ہے کہ کوئی بندہ ذہانت کا پیکر نظر آتا ہے، کوئی درمیانہ یا کم درجہ کا ذہین ہوتا ہے۔ ذہانت کے اسی فرق کے سبب ایک انسان کسی مسئلہ کے مفید یا نقصان دہ پہلو کو پلک جھپکتے ہی سمجھ جاتا ہے جبکہ دوسرا اپنی عقل و فکر کو تھکا کر بھی نتیجہ تک رسائی نہیں پاتا اسی لئے اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان اپنی عقل و فہم کو ہی کامل نہ سمجھے بلکہ دوسروں سے مشورہ کر لے تاکہ بعد کی پریشانی اور خسارہ سے بچا جا سکے۔ کئی مواقع ایسے بھی پیش آتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے دو پہلو نظر آتے ہیں، انسان فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کام کے کس رخ کو اپنانے میں بھلائی ہے اور کس طرف نقصان اور برائی ہے؟

ایسی صورت حال میں اسلام اپنے ماننے والے کو سکھاتا ہے کہ اپنی عقل و دانش پر اعتماد کر کے نقصان اٹھانے کی بجائے مشورہ ہی کر لے تاکہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اب مشورہ دینے والے دو قسم کے ہوتے ہیں:

1۔ جنہیں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور خیر خواہی کا جذبہ دل میں لیے اور اجرو ثواب کے حصول کے لیے اپنے مسلمان بھائی کو اللہ کی رضا کے لیے مشورہ دیتے ہیں۔

2۔ وہ جو اللہ پاک کا دلوں میں کچھ خوف نہیں رکھتے، دوسروں کو غلط مشورہ اس لیے دیں گے اس کا کام خراب ہو او لوگوں کی نظروں میں کوئی عزت نہ رہے بے شک یہ ضرور حاسد لوگ ہیں۔

حضرت موسی کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آ سیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان دونوں کی دعوت کو رد کرے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا میں تمہیں عقلمند سمجھتا تھا تم حاکم ہو یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جز: 16، ص 682)

جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا، فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

اللہ کریم ہمیں ایک دوسرے کا رازدار رہنے ایک دوسرے کو اللہ پاک کی رضا کے لیے درست مشورہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مشورہ اور مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا، باہمی سوچ بچار کرنا۔

مشورہ کا حکم: اہم معاملات میں باہمی مشورہ لینا آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعثِ برکت ہے۔ (معارف القرآن، 2/219)

مشورہ ایک امانت ہے اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ مانگا، اور اس نے بغیر سوچے سمجھے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)

رسول پاک ﷺ نے فرمایا: وہ جب تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

دین اسلام کی روشن تعلیمات میں مشورہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام میں مشورہ کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اللہ پاک نے خود اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ نبیّ کریم ﷺ سے بڑا دانا اور عقل مند کون ہوسکتا ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ ﷺ کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں، مشہور تابعی حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے متقدمین کی 71کتابیں پڑھی ہیں، ان تما م کتابوں میں یہی پایا کہ اللہ پاک نے دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے انجام تک تمام لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبیّ کریم ﷺ کی عقل مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے میں ایک ذرہ ہو۔ آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ایسی کمال عقل کے باوجود اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔

تفسیر قرطبی میں ہے: اللہ پاک نے نبیّ کریم ﷺ کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس وجہ سے نہیں دیا کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو ان کے مشورہ کی حاجت ہے، حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں مشورے کی فضیلت کا علم دے اور آپ کے بعد آپ کی امّت مشورہ کرنے میں آپ کی اتّباع کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کو مشورہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ پاک نے مشورہ کو میری امّت کے لئے رحمت بنایا ہے۔ نبیّ کریم ﷺ خود بھی مشورہ فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے، آئیے! اسی بارے میں دوفرامین مصطفٰے پڑھتے ہیں:

(1)عقل مندوں سے مشورہ کرو کامیابی پالو گے اور ان کی مخالفت نہ کرو ورنہ شرمندگی پاؤ گے۔

(2)جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان شخص سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے درست کام کی ہدایت دے دیتا ہے۔

مشورہ سے متعلق کچھ آداب: مشورہ کس سے کرنا ہے اس بارے خوب غور و فکر سے کام لینا چاہئے اور مشورہ سے پہلے خوب سوچ لینا چاہئے کیونکہ ہرکس و ناکس، ناتجربہ کار، بددین و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا جائے اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ دے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

بن مانگا مشورہ نہ دیا کریں: جو چیز طلب کر کے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی نا قدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزت اور عافیت ہے ورنہ سامنے والا اگر منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا کیجئے ! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں۔

رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے اسے امانت داری کا پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ باہمی امور میں مشاورت سے کا لیا جائے۔ یہ اللہ پاک کا حکم بھی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی۔ لہذا موقع پر مشورہ اور مشاورت کا اہتمام ایک ضروری امر ہے۔

قرآن پاک میں ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ ہر بن مانگا مشورہ برا نہیں ہوتا لیکن اس پر اصرار کرنے والوں میں شامل تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو دوسروں کی نجی زندگی ( personal life) کا احترام کرنا سیکھئے۔ اپنے الفاظ اور لہجے میں لچک پیدا کریں تا کہ سامنے والا آزمائش میں نہ پڑے۔ عین ممکن ہو کہ آپ کا مشورہ تو بلکل درست ہو لیکن اس غریب کے پاس اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے رقم ہی نہ ہو ایسے میں آپ کااصرار اسے شرمندہ کر دے گا۔ ہر ایک کی ذہنی، قلبی اور جسمانی کیفیت الگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی پسند نا پسند اور نفع نقصان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ایک ہی چیز کسی کو ترقی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے! شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت میں ہمدردی میں مشورہ دیا تو دیکھئے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھدار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہنچانتا ہے اس کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو یا نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ ہر ایک کو اس کی زندگی میں دخل اندازی کا حق نہیں دیا جا سکتا ہاں ! ماں باپ، بہن بھائیوں، استاد، مرشد اور عالم دین کی بات دوسری ہے، یہ بھی احتیاط کادامن تھام کر مشورہ دیں۔ یہی ہماری سماجی زندگی کا حسن ہے اسے برقرار رکھئے آسانیاں پیدا کیجیے اور دوسروں کی زندگی مشکل نہ بنائیے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ آج مسلمان اس عظیم سنت کی پیروی کریں جس میں اس کی سعادت، خوش بختی اور معاشرے کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے اور ہزاروں دینی اور دنیاوی فائدے بھی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں عقل سلیم نصیب فرمائے اور دوسروں کو اچھا مشورہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الآمین ﷺ

غلط مشورہ دینا خیانت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

جہاں تک مسلمان کو مشورہ دینے کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان موجود ہے: جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

غلط مشورہ لے ڈوبا: حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا ! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)

مشورہ کس سے کیا جائے؟ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے، چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا، چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیر خواہ اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔

بن مانگے مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طلب کر کے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزت و عافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے: آپ سے کسی نے پوچھا ہے ؟ لیکن کیا کیجئے ! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔

غلط مشورہ دینا ایسا عمل ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر ایسا مشورہ دے جو غیرمفید، نقصان دہ یا گمراہ کن ہو۔ یہ عمل اکثر ذاتی مفادات، لاعلمی، غیر ذمہ داری، یا ناپختہ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

غلط مشورے کی اقسام: جان بوجھ کر غلط مشورہ دینا، کسی کو دھوکہ دینے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے مشورہ دینا، ذاتی مفادات کے لیے دوسرے کو نقصان دہ راستے پر لگانا۔ نادانستہ طور پر غلط مشورہ دینا، کسی موضوع پر مکمل معلومات یا تجربہ نہ ہونے کے باوجود مشورہ دینا، مسئلے کی نوعیت کو سمجھے بغیر رائے دینا۔

نتائج: غلط مشورہ لینے والا فرد نقصان اٹھا سکتا ہے، مشورہ دینے والے کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے، اعتماد کا رشتہ کمزور ہو سکتا ہے۔

اسلام میں جان بوجھ کر غلط مشورہ دینا دھوکہ دہی کے مترادف ہے اور سختی سے منع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 95) اس کا مطلب ہے کہ ہر مشورہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ دینا چاہیے، تاکہ دوسرے کو فائدہ پہنچے۔

حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16، ص 682)

ناتجربہ کار، بددین و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا جائے اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ دے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے ایسا مشورہ دیا کہ بھلائی اس کے علاوہ میں ہو تو اس نے مشورہ مانگنے والے کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

اللہ پاک نے خود اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے بڑا دانا اور عقل مند کون ہوسکتا ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ ﷺ کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں، اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔


پیاری اسلامی بہنو! مشورہ کے معنیٰ ہیں کسی معاملے میں جو آپکو پیش آجائے، کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا یہ بہت مفید ہے۔ اللہ پاک نے اپنے نبی پاک ﷺ کو صائب الرّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے باوجود صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں ان کی دلجوئی بھی تھی اور عزّت افزائی بھی! چنانچہ مشورہ کرنا سنّت سرکار ﷺ ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! اس سے ہمیں اولاً تو ایک سنت مبارکہ بھی سیکھنے کو ملی کہ مشورہ کرنا سنت سرکار ﷺ ہے اور دوسرا یہ کہ مشورہ کرنا برکت کی چابی ہے تیسرا یہ کہ مشورہ کرنےکی وجہ سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے یعنی کوئی بھی کام ہو اگر ہم اسکے بارے میں کسی قابل اعتماد اور سمجھدار شخص سے مشورہ کرلیں تو بہت ساری غلطیوں سے بچ سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس سے آپ مشورہ کررہے ہیں وہ آپکو کچھ ایسا مشورہ پیش کرے جس سے آپکا وہ کام مزید بہتر ہوجائے۔

لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی نہ اپنی مستقل رائے ہوتی ہے اور مشورہ بھی نئی کرتے ایسے لوگ بغیر مشورہ کیے بغیر سوچے سمجھے بس اپنا کام کرگزرتے ہیں جسکی وجہ سے بعد میں انکو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی تین قسم کے ہیں: ایک وہ آدمی جو معاملات میں اپنی مستقل اور مضبوط رائے رکھتا ہے، دوسرا وہ جس کی اپنی رائے مستقل نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل رائے والوں سے مشورہ کرکے اپنے معاملات چلاتا ہے اور تیسرا وہ آدمی جس کی نہ اپنی رائے مستقل ہوتی ہے نہ وہ کسی سے مشورہ کرتا ہے،ایسا شخص پریشان رہتاہے۔ (ادب الدنیا والدین، ص 473)

مشورہ کس سے کیا جائے؟ اب اگر ہمارا ذہن بن جائے کہ ہم اپنے کام میں بہتری کے لئے کسی سے مشورہ کریں تو ایک تعداد ہے جسکے ذہن میں پہلا سوال ہی یہی آتا ہے کہ مشورہ کیا کس سے جائے؟ تو پیاری اسلامی بہنو! آپکی خدمت میں چند نصیحت آموز باتیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی تاکہ آپ جب بھی مشورہ کریں تو یہ نہ ہو کہ اپنا بھلا سوچتے سوچتے نقصان ہی نہ کربیٹھیں۔

تو پیاری اسلامی بہنو! یہ سوال جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ مشورہ کس سے کیا جائے؟ تو جواب آپکی خدمت عرض کرتی ہوں کہ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے،چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا۔ چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیرخواہ اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ ان شاء اللہ الکریم

اب کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کے اچھے کام میں اسکی کو غلط مشورہ پیش کرتے تاکہ اسکا کام مکمل نہ ہوسکے اور وہ ناکام ہوجائے اس کو ذلت اٹھانی پڑی ایسے لوگ آپکے حاسد ہوتے ہیں جن کو آپکی کامیابی پسند نہیں ہوتی وہ آپکو غلط مشورہ دے کر اپنی کسی پرانی دشمنی کا بدلہ نکالتے ہیں ایسے لوگوں سے بھی بچ کر رہئے محتاط رہئے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکو مشورے دینے کا کوئی ذاتی شوق یا عادت ہوتی ہے کہ کوئی مشورہ مانگے یا نہ مانگے لیکن انہوں نے اپنی رائے ضرور ہی پیش کرنی ہوتی ہے اب چاہئے انکے پاس کوئی سہی بات پیشں کرنے والی ہو یانہ ہو لیکن اپنی عادت یا شوق سے مجبور ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ غلط مشورہ نہ دیجئےاور جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔

غلط مشورے دینے والوں کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/ 212)

دوسروں کے غلط مشوروں سے جہاں تک ہوسکے بچ کر رہیں۔ کیونکہ آپ اپنی زندگی بہتر جانتے ہیں۔ آپ کو اپنے لیے جو بہتر لگتا ہے وہ کریں اور مشورہ کرنے کے لئے بھی احتیاط سے کام لیجئے کہ محتاط سدا سکھی رہتا ہے اور جہاں تک مسلمان کو مشورہ دینے کا تعلق ہے تو اس بارے میں ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہ

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

فرمانِ رسولِ پاک ﷺ ہے: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

غلط کام کرنے پر مشورہ لینے و دینے کاحکم: واضح ہو کہ مشورہ ایک امانت ہے اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتاہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی نے جان بوجھ کر اپنے مسلمان بھائی کو غلط مشورہ دیا یہ جانتے ہوئے کہ بھلائی اس کے علاوہ میں ہے تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) لہذا کسی غلط کام کرنے کی تائید کرنے اور اسے کرگزرنے کا مشورہ دینے والا شخص بلاشبہ خیانت کا مرتکب اور اس گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔ جس پر توبہ واستغفار اور آئندہ کے لیے اس طرح کی امور سے مکمل اجتناب لازم ہے۔

بن مانگے مشورہ دینا: بن مانگے مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طلب کرکے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزّت وعافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے: آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا کیجئے! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے میری طرف کوئی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے، اور جس سے اس کے کسی مسلمان بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے اسے غلط مشورہ دیا تو اس نے مشورہ لینے والے کی خیانت کی، اور جس نے بغیر دلیل کے غلط فتویٰ دیا (اور فتویٰ لینے والے نے اس پر عمل کر لیا) تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا جس نے فتویٰ دیا۔غلط مشورہ نہ دیجئے جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ دُرُست مشورہ دے ورنہ خائِن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غَلَط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مُشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح،1/212) بِن مانگے مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طلب کرکے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزّت وعافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے: آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا کیجئے! ہمارے مُعاشرے میں بِن مانگے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔ مثالیں جس طرح کسی کاریگر کا ٹُول باکس اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اسی طرح بِن مانگے مشورے دینے والے بھی مشوروں کا بیگ اپنے ہمراہ رکھتے ہیں، کسی کام سے ان کا واسطہ یا تجربہ ہو یا نہ ہو! اس بارے میں مشورہ دینے سے باز نہیں رہتے بلکہ اس مشورے پر عمل کرنے کے لئے اصرار بھی کرتے ہیں، مثلاً (1)کسی کو بیمار دیکھا تو جھٹ سے دوائیوں کے نام تجویز کردئیے (2)کوئی گاڑی خراب دیکھی تو فوراً بونٹ کھول کر آپریشن شُروع کردیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ فلاں پُرزہ بدل دو اور کام مزید بگاڑ دیتے ہیں (3)کپڑے کی دُکان پر جائیں گے تو ساتھ والے گاہک کو تاکید کریں گے کہ آپ فلاں رنگ لے لیں آپ پر بہت اچھا لگے گا (4)کسی موٹے شخص کو دیکھا تو مشورہ حاضر کہ کم کھایا کرو بھلے اس بے چارے کا جسم کسی بیماری یا دوائی سے پھولا ہوا ہو، تیز تیز واک کیا کرو چاہے بے چارے سے آہستہ بھی نہ چلا جاتا ہو۔

مشورے کے معنی کسی معاملے یا فیصلے میں کسی دوسرے کی رائے تجویز یا رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ مشورہ اپنے سے زیادہ تجربہ اور علم والے سے مانگا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ مشورہ مانگنے والے کو اپنے تجربے اور علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ دینے سے انکار نہ کرے، جب ہم سے مشورہ مانگا جائے اور ہمیں اس کے بارے میں علم ہے۔ہم اس بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اس بارے میں تجربہ رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے علم اور اپنی عقل اور اپنی سمجھ کے مطابق بہتر سے بہتر مشورہ دینا چاہیے اور بعض مشورہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں۔

مشورہ نیکی اچھائی اور اچھے کاموں کے لیے دینا چاہیے۔ غلط کاموں میں گناہ کے کاموں میں زیادتی کے کاموں میں مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ مشورہ جو بھی دیا جائے اپنے علم اور تجربے کے مطابق درست اور صحیح دیا جائے۔

اگر ہم جانتے بوجھتے کسی کو غلط مشورہ دیں تو سخت گناہ گار ہونگے ہم خیانت کے مرتکب ہونگے۔ مسلمان ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔

کسی کو غلط مشورہ دے دینا اور پھر اس پر ہنسنا یہ بہت ہی غلط بات ہے اور خیانت ہے۔

اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو بھی مشاورت کا حکم دیا: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی صحابہ کرام سے۔ نبی اکرم ﷺ اپنے اصحاب سے مشاورت کرتے تھے۔ اور ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے تھے۔

ایک صحابی نے مشورہ دیا کہ یہ جگہ بہتر نہیں ہے فلاں جگہ پر پڑاؤ ڈالنا چاہیےجہاں پانی نزدیک ہو آپ نے ان کے مشورے سے جگہ تبدیل کی۔ جنگ بدر میں آپ نے مشورے کی بنیاد پر پڑاؤ کی جگہ تبدیل کی، قیدیوں کے بارے میں اصحابہ کرام سے مشاورت کی، جنگ احد میں مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مشورے سے ہوا حالانکہ نبی کریم ﷺ مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے، جنگ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ حضرت سلمان فارسی نے دیا جس پر عمل ہوا۔

جن سے مشورہ مانگا جائے وہ بہترین مشورہ دے۔ اگر مشورہ دینے والے کو اس بارے میں علم نہ ہو تو مشورہ لینے والے کو بتا دے۔ اگر جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس نے خیانت کی اور خیانت بہت برا جرم ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس سے اس کے کسی بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے غلط مشورہ دیا تو اس نے مشورہ دینے والے کی خیانت کی۔(ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی سے اس کے بھائی نے مشورہ مانگا اور اس نے بغیر سوچے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)

لہذا کسی غلط کام کرنے کی تائید کرنے اور اسکے گزرنے کا مشورہ دینے والا شخص بلاشبہ خیانت کا مرتکب اور اس گناہ میں برابر کا شریک ہوگا جس پر توبہ و استغفار اور آئندہ کے لیے اس طرح کے امور سے مکمل اجتناب لازم ہے۔

مشورہ کے معنیٰ: کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔

مشورہ کرنا سنّت سرکار ہے۔ آپ ﷺ نے میدان بدر میں جگہ کے انتخاب کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول فرمایا جس کا مسلمان لشکر کو فائدہ ہوا۔ (تاریخ اسلام، 3/286)

ہمارے خلفائے راشدین بھی مشورہ کرتے تھے، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نوجوان اورعمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام یہ کیا کہ وہاں کے فقہائے کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ مجلس شوریٰ بنادی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔ (البدایۃ و النھایہ، 6/ 332)

آج کے دور میں مشورہ کس سے مانگیں؟ ہر کسی سے بھی مشورہ لینا عقلمندی نہیں ہے ہر معاملے میں ہر کسی سے بھی مشورہ نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر چیز کی قیمت اس چیز کا قدر دان ہی بہتر جان سکتا ہے۔

جیسے کہ ایک نایاب موتی کی قیمت ایک سونار ہی جان سکتا ہے۔ مگر عام آدمی کی نظر میں اس کی کچھ قیمت نہیں۔ اس لیے مشورہ بھی کسی عقلمند اور تجربی کار انسان سے کیا جائے جو آپ کو کسی مصیبت میں بھی نہ ڈالے۔

جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16، ص 682)

ہامان کے فرعون کو غلط مشورے نے اس کو ایمان قبول کرنے سے محروم کر دیا ایسے ہی بہت سے بیوقوف لوگ ہیں جو دوسروں کو غلط مشورے دے کر ان کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا مشورہ دے رہے ہیں۔

جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا، فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

اس لیے چاہیے کہ کسی کو غلط مشورہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ ہر کسی کی جسمانی و ذہنی کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کسی کو ترقّی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے! شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت اور ہمدردی میں مشورہ دیا تو یاد رکھئے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھ دار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہچانتا ہے اس کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ کو مشورہ دیں تو غلط مشورہ نہ دیں بلکہ اس کو صحیح مشورہ دیں اور صحیح انسان سے ہی مشورہ کرے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے سب کے ساتھ بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

زندگی میں مشورہ ہماری رہنمائی کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم ہر دن مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور بہتر فیصلے کرنے کے لئے دوسروں سے مشورہ لیتے ہیں۔ تاہم، بعض اوقات غلط مشورے بھی دیئے جاتے ہیں جو ہمیں مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔ غلط مشورہ ایک ایسا مشورہ ہوتا ہے جو غلط یا غیر مناسب معلومات پر مبنی ہو اور جو کسی شخص کے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

غلط مشورے کے اثرات: غلط مشورے کے اثرات مختلف صورتوں میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے فیصلے میں غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں، جو کہ ہمارے مقصد کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو کاروبار شروع کرنے کے لئے غلط مشورہ ملے تو وہ صحیح حکمت عملی اختیار نہ کر سکے گا، اور اس کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔

غلط مشورے کی وجوہات: غلط مشورے دینے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً: غلط معلومات، ذاتی مفادات اور غلط فہمی وغیرہ۔

غلط مشورے سے بچنے کے لئے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں، مثلاً: معلومات کی تصدیق کریں، ماہر افراد سے مشورہ لیں اور خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔

غلط مشورہ انسان کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم مشورے کو احتیاط سے سنیں اور صرف ایسے مشورے پر عمل کریں جو ہماری حالت اور مقصد سے ہم آہنگ ہوں۔ زندگی میں بہترین فیصلے کرنے کے لئے خود اعتمادی، صحیح معلومات اور مناسب رہنمائی ضروری ہے۔

غلط مشورہ دینا یا لینا ایک طرح سے کسی کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، جو کہ اسلام میں سخت ناپسندیدہ ہے۔

جب تمہیں کوئی مشورہ دیا جائے تو اسے ٹھیک سے سنو اور پھر فیصلہ کرو، کیونکہ مشورہ آپ کو بہترین راستہ دکھاتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشورہ دینا اور لینا ایک ذمہ داری ہے اور اس میں اخلاص اور سچائی ضروری ہے تاکہ فائدہ ہو نہ کہ نقصان۔

اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی سے مشورہ لینے سے پہلے اس شخص کی صلاحیت اور علم کا جائزہ لیں۔ اگر وہ شخص کسی مخصوص شعبے میں ماہر نہیں ہے تو اس سے مشورہ لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ غلط مشورہ دینا یا لینا صرف دنیاوی مشکلات کا سبب نہیں بنتا بلکہ دین کے اعتبار سے بھی یہ ناپسندیدہ ہے۔ مشورے کے انتخاب میں احتیاط اور صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کامیاب اور محفوظ رہیں۔

اسلام میں مشورہ کی اہمیت اور اس کی صحیح نوعیت پر قرآن مجید میں بھی گہری توجہ دی گئی ہے۔ قرآن میں مشورہ لینے کی اہمیت بیان کی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ غلط مشورہ دینا یا لینا ایک سنگین معاملہ ہو سکتا ہے۔

قرآن مجید میں مشورہ لینے کو ایک مثبت عمل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشورٰی میں فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ان کے معاملات اور فیصلے مشورے کے ذریعے کیے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں یک طرفہ فیصلے کی بجائے مشورے کا عمل اپنانا چاہیے، تاکہ سب کے خیالات اور تجربات کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

مشورہ اسلامی تعلیمات میں سے ایک نہایت مہتم بالشان حکم ہے، اور رسول الله ﷺ کی سنت اور آپ کے عمل سے ثابت ہے۔ مشورے کے متعلق آپ نے فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے۔ اسے امانتداری کا پورا حق اد کرنا چاہئے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

مشورہ کی ضرورت عموماً اس وقت پیش آتی ہے جب کسی معاملے کے دو یا اس سے زیادہ پہلو نظروں کے سامنے ہوں اور دونوں پہلوؤں میں فائدے اور نقصان دونوں باتوں کااحتمال ہو۔

مشورہ کس سے کیا جائے ؟ ہر کسی سے مشورہ لینادانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گاـ چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقوی والے، خبر خواہ اور بے غرض ہوں۔

غلط مشورہ نہ دیجئے: جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ مشورہ دے وہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشورہ دینے والا پکاّ خائن ہے۔ خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

مشورہ دینے والے کیلئے حکم: جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اسی طرح ان افراد کے بارے میں بھی احکام ہیں، جن سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خیر خواہی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ـ مشورہ میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ کہا گیا ہے۔

غیر مسلم کو بھی غلط مشورہ نہ دیا جائے، غیر مسلموں کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے۔

تجھ سے مشورہ کرنے والے کا یہ حق ہے کہ اگر کوئی نظریہ رکھتے ہو تو اسے بتا دو اور اگر اس کام کے بارے میں تجھے علم نہیں تو اس کی ایسے شخص کی طرف رہنمائی کرو جو جانتا ہے اور مشور ہ دینے والے کا حق تجھ پر ہے کہ جس نظریے میں وہ تمہارا موافق نہیں ہے اس میں اس پر تہمت تراشی نہ کرو۔

مشورہ کرنے کا حکم اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو قرآن کریم میں دیا۔ مشورہ کرنا سنت مصطفی ہے۔ مشورہ کرنے والا دانائی اور حکمت کو پا لیتا ہے۔ مشورہ انسان کو درستی کے قریب کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سب برکات اچھے اور درست مشورے کے ساتھ خاص ہیں جبکہ اس کے برعکس غلط مشورہ انسان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ غلط مشورے نے ہی فرعون کو دلائل واضح ہوجانے کے باوجود حق کا انکار کرنے پر ابھارا۔غلط مشورے نے ہی عقبہ بن ابی معیط کو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے پر مجبور کیا۔غلط مشورہ ہی ابن سعد کی امام حسین رضی اللہ عنہ پر لشکر کشی کا سبب بنا۔ غرض یہ کہ ایک غلط مشورہ کی وجہ سے انسان انسانیت کے درجے سے گرے کام کر گزرتا ہے اور پھر دنیا و آخرت میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو غلط مشورہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے:

غلط فرد سے مشورہ کرنا،غلط کام کا مشورہ کرنا،کسی کو غلط مشورہ دینا۔آئیے مختصرا ان کا جائزہ لیتے ہیں:

غلط فرد سے مشورہ لینا: نااہل سے مشورہ کرنا مشورہ کرنے والے کی نااہلیت پر دلالت کرتا ہے۔احمق اور بیمار سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا کہ احمق فائدہ پہنچانے کے چکر میں نقصان پہنچا دے گا اور بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں مشورہ طلب کرتے وقت مشیر کی قابلیت اور صلاحیت کو مد نظر رکھا جائے ورنہ اگر ہیرے کی قیمت میں سبزی فروش سے مشورے کرنے پر اس کی قیمت چند لیموں ہی طے پا سکتی ہے۔

کفار غلط افراد سے مشورہ طلب کرنے اور دوستی کے سبب نصیحت آنے کے باوجود کفر پر قائم رہے اور قیامت کے دن ان کی حسرت کے الفاظ کو یوں بیان فرمایا گیا: یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ- (پ 19، الفرقان: 28، 29)ترجمہ کنز العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا۔

حضرت سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:تمہارے مشیر متقی، امانت دار اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔

غلط کام کا مشورہ کرنا: اگر جس کام کیلئے مشورہ کیا جا رہا ہے وہ ہی برا اور مذموم ہے تو اس کیلئے مشاورت بھی یقینا غلط ہی ہے۔قرآن پاک میں برائی کے کام پر ایک دوسرے کی مدد کرنے سے منع فرمایا گیا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ یوہیں غلط کام کیلئے مشورہ کرنے والوں کیلئے فرمایا: لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ (پ 5، النساء: 114) ترجمہ کنز العرفان: ان کے اکثرخفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔

صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کیلئے مشورے کرتے ہیں جیسے سینما بنانے، بے حیائی کے سینٹر بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کیلئے مشورے کرتے ہیں یہ مشورے صرف خیر سے خالی نہیں بلکہ شر سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔

غلط مشورہ دینا: بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے مشیر اہل ہونے کے باوجود کسی فاسد غرض کی بنا پر درست مشورہ نہیں دیتا۔کبھی معاملہ سلجھتا نظر آ رہا ہوتا ہے مگر کہیں یہ مجھ سے آگے نہ نکل جائے اس دوڑ میں غلط مشورے سے اس کو مزید الجھا دیا جاتا ہے تو کبھی بغض و کینہ یا حسد غلط رائے دینے پر ابھارتا ہے۔ جیسے شیطان نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے وسوسہ ڈالا کہ تمہیں تمہارے رب نے ممنوعہ درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اس مشورے کی وجہ سے حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اس درخت سے کھایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیا اس پر دونوں کو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم الہی ہوا۔ یاد رہے کہ مشورہ دینے والا امین ہے۔اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئے دے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

اللہ پاک ہمیں اچھے افراد کی صحبت عطا فرمائے اور برے افراد کے شر سے محفوظ رکھے۔

زندگی کے مختلف معاملات میں درست مشورے کے حصول کیلئے مدنی مذاکرے میں شرکت کو معمول بنا لیجئے۔

قارئین! وعظ و نصیحت کا لفظ عام طور پر خلوص و عزت کے لیے بھلائی کی بات بتانے اور نیک صلاح مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ شفاء شریف میں ہے کہ جس شخص کو نصیحت کی جا رہی ہو اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت تعبیر کیا جاتا ہے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 351)

مشورہ دو طرح کا ہوتا ہے: 1)اچھا مشورہ 2)غلط مشورہ۔

غلط مشورہ ایک ایسا مشورہ ہوتا ہے جو کسی کے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مشورہ نادانستہ طور پر دیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی کی نا واقفیت کی وجہ سے، یا جان بوجھ کر جیسا کہ کسی کے خلاف سازش کے طور پر۔

مشورہ کی تعریف: کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی زبان اقدس سے اپنے رب پاک کی دعوت قبول کر کے ایمان اور اطاعت کو اختیار کیا۔ ان انصار کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب انہیں کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو پہلے آپس میں مشورہ کرتے ہیں پھر وہ کام سرانجام دیتے ہیں، اس میں وہ جلد بازی اور من مرضی نہیں کرتے۔ (صراط الجنان، 9/80 )

مشورہ کرنے کی اہمیت: مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو بھی اجتہادی امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔

اور تاجدار رسالت ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام بھی دینی و دنیاوی اہم امور باہم مشورے سے طے کرتے تھے۔

مسلمانوں کو اچھے مشورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ برے مشورے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَ التَّقْوٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۹) (پ 28، المجادلۃ:9) ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ کرو اوراس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اکٹھا کیا جائے گا۔

اس آیت مبارکہ سے مشورے کے متعلق معلوم ہونی والی 2 باتیں:

1) مسلمان صلاح مشورے مسلمانوں ہی سے کریں، کفار سے نہ کریں اور انہیں اپنا مشیر وغیرہ نہ بنائیں۔

2)آپس میں مشورے بھی اچھے ہی کریں، برے نہ کریں۔

مشورہ کرنا سنت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہو جاتا ہے اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو وہ خیانت کرنے والا کہلائے گا۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (جب) تم سے کوئی مشورہ کرے تو اچھا مشورہ دو، اگر شرعی مسئلہ پوچھے تو ضرور بتاؤ یعنی خالص اچھی رائے دو جس میں برائی کا شائبہ نہ ہو۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 359)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔ (صراط الجنان، 9/81)

بار بار غلط مشورہ ملنے سے بسا اوقات انسان خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے سبب وہ درست فیصلہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے مشورہ لیا جائے اس پر لازم ہے کہ مخلص ہو کر اچھا مشورہ دے۔

جس سے مشورہ لیا جائے اس میں درج ذیل خصوصیات ہونی لازمی ہیں:

1)امانت دار ہو 2)رازدار ہو 3)علم والا ہو 4)تجربہ والا ہو 5)خودغرض نہ ہو 6)بردبار ہو 7)مثبت سوچ رکھتا ہو 8)حکمت سےمشورہ دینے والا ہو 9)تقوی والا ہو 10)صاف گو ہو 11)معاملے کی گہرائی کو سمجھنے والا ہو۔