عبدالعلی مدنی ( مدرس جامعۃ المدینہ کنزالایمان مصطفیٰ آباد
رائیونڈ ،ضلع لاہور ، پاکستان)
ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ
فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا
یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا
قَوْلَ الزُّوْرِ(30) (ترجمہ
کنزالایمان:) بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لئے اس کے
رب کے یہاں بھلا ہے اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے سوا اُن کے جن کی
ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔(سورۃ
الحج، آیت : 30)
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو
شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم
اُس کے لئے بہتر ہے کہ اِس پر اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں ثواب عطا فرمائے گا۔(
البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: 30، 6 / 339، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: 30،
6 / 29، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی
حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد اللہ تعالیٰ
کے اَحکام ہیں خواہ وہ حج کے مَناسِک ہوں یا ان کے علاوہ اور احکام ہوں اوران کی
تعظیم سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کئے جائیں اورجن
کاموں سے منع کیا انہیں نہ کیا جائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہاں حرمت والی چیزوں سے
حج کے مناسک مراد ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ حج کے مناسک پورے کئے جائیں اور
انہیں ان کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ مقامات
مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت ِحرام ، مَشْعَرِ حرام، بلد
ِحرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی
عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: 30، ص738، خازن، الحج،
تحت الآیۃ: 30، 3 / 308، ملتقطاً)
مکہ
مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام: حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری
امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کاحق ادا کرتے
رہیں گے اور جب وہ اس حق کوضائع کردیں گے توہلاک ہوجائیں گے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب
المناسک، باب فضل مکّۃ، 3 / 519، الحدیث: 3110)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں ’’تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ
نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف کی بے حرمتی کی ، ہلاک و برباد ہوگیا، یزید پلید کے
زمانہ میں جب حرم شریف کی بے حرمتی ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم
ہوگئی۔( مراۃ المناجیح، باب حرم مکہ حرسہا اللہ تعالٰی، تیسری فصل، 4 / 242-243،
تحت الحدیث: 2605۔)
عام بول چال میں
لوگ “ مسجدِ حرام “ کو حرم شریف کہتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف
حرم محترم ہی میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ سمیت اس کے اردگرد مِیلوں تک پھیلا
ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص89)
داخلی
حرم کے احکام:جب حرم مکہ کے متصل
پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے بچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہو سکے تو
پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل
ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔
مکہ معظمہ کے
گردا گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اُس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے
اندر تر گھاس اُکھیڑنا ، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام
ہے۔ یہاں تک کہ اگر سخت دھوپ ہو اور ایک ہی پیڑ ہے اُس کے سایہ میں ہرن بیٹھا ہے
تو جائز نہیں کہ اپنے بیٹھنے کے لیے اسے اُٹھائے اور اگر وحشی جانور بیرون حرم کا
اُس کے ہاتھ میں تھا اُسے لیے ہوئے حرم میں داخل ہوا اب وہ جانور حرم کا ہو گیا
فرض ہے کہ فوراً فورا چھوڑ دے۔ مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر (1) بکثرت ہیں ہر مکان میں
رہتے ہیں، خبر دار ہرگز ہرگز نہ اڑائے ، نہ ڈرائے ، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر
ادھر کے لوگ جو مکہ میں لیے کبوتروں کا ادب نہیں کرتے ، ان کی ریس(نقل) نہ کرے مگر
برا جانے۔ انھیں بھی نہ کہے کہ جب وہاں کے جانور کا ادب ہے تو مسلمان انسان کا کیا
کہنا! یہ باتیں جو حرم کے متعلق بیان کی گئیں احرام کے ساتھ خاص نہیں احرام ہو یا
نہ ہو بہر حال یہ باتیں حرام ہیں۔(بہار شریعت جلد اول، حصہ 6، ص:1105٫1106)
(1) کہا جاتا
ہے کہ یہ کبوتر اس مبارک جوڑے کی نسل سے ہیں، جس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت غار ثور میں انڈے دیئے تھے، اللہ عزوجل نے اس خدمت کے
صلہ میں ان کو اپنے حرم پاک میں جگہ بخشی ۔(المرجع السابق ص:1106)
خانۂ کعبہ کی
زیارت و طواف ، روضۂ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت
، حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پُرکیف نظاروں کی زیارت
سے اپنی روح و جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ، لہٰذا جس خوش نصیب
کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر قسم کی خُرافات و فضولیات سے بچتے
ہوئے اس سعادت سے بہرہ وَر ہو۔ ذیل میں حرمین طیبین کی حاضری کے بارے میں چند مدنی
پھول پیش کئے جارہے ہیں ، جن پر عمل کرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ زیارتِ
حرمین کاخوب کیف و سرور حاصل ہوگا۔
حرمِ مکہ
کےآداب: (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اور سر جھکائے خشوع
و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے سے پہلے غسل بھی
کرلیں۔ (3)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (4)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر
دَم رَحمتوں کی بارِشیں برستی ہیں۔ وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر یہ
بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنِگاہی ،
داڑھی مُنڈانا ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، وعدہ خِلافی ، مسلمان کی دِل آزاری ، غصّہ و
تَلْخ کلامی وغیرہا جیسے جَرائم کرتے وَقت اکثر لوگوں کویہ اِحساس تک نہیں ہوتا کہ
ہم جہنَّم کا سامان کر رہے ہیں۔
مسجدالحرام کے
آداب (5)جب خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کر صدقِ دل سے اپنے اور تمام عزیزوں
، دوستوں ، مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بِلا حساب داخلۂ جنّت کی دُعا کرے کہ
یہ عظیم اِجابت و قبول کا وقت ہے۔ شیخِ طریقت ، امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ “ یااللہ میں جب بھی کوئی
جائز دعا مانگا کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے “ ۔ علامہ شامی
قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے فقہائے کرام رحمہم اللہ السَّلام کے حوالے سے لکھا
ہے : کعبۃُ اللہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جنت میں بے حساب داخلے کی دُعا مانگی جائے
اور درود شریف پڑھاجائے۔ (ردالمحتار ، 3 / 575 ، رفیق الحرمین ، ص91)
(6)وہاں چونکہ
لوگوں کا جمِّ غفیر ہوتا ہے اس لئے اِسْتِلام کرنے یا مقامِ ابراہیم پر یا حطیمِ
پاک میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے سے گُریز کریں اگر بآسانی یہ
سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح ، ورنہ ان کے حصول کے لئے کسی مسلمان کو تکلیف دینے
کی اجازت نہیں۔ (7)جب تک مکّۂ مکرمہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اور نفلی روزے
رکھ کر فی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب لُوٹیے۔
اللہ کریم ہمیں
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی باادب حاضری نصیب فرمائے آمین ۔ حرم و حدود حرم کے
آداب و احکام کے بارے میں مزید معلومات کیلئے بہار شریعت جلد اول سے حج کا بیان
اور امیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب رفیق الحرمین کا مطالعہ نہایت مفید
ہے ۔
ارسلان حسن (درجۂ ثالثہ جامعۃ ُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم
سادھوکی لاہور ، پاکستان)
(2)حرمِ مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے
فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مراٰۃ المناجیح،4/202)
(3)حرمِ مکہ کی تعظیم کرنا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا
کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)
(4)حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: ﴿وَ مَنْ
یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ
لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم
کرے تو وہ اس کے لیے اُس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔ (پ17،
الحج: 30)
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں
حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت ِحرام، مَشْعَرِ حرام، بلدِ حرام اور
مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و
حرمت کی حفاظت کی جائے۔(دیکھئے: صراط الجنان، 6/434)
(5)درخت کاٹنا: حرمِ
مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے
جائیں۔(مراٰة المناجیح،4/201)
اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری
نصیب فرمائے
اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد کاشف عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
غصہ ایک نفسیاتی
کیفیت کا نام ہے، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اس وجہ سے ہر شخص کے اندر اس فطرت کا
وجود ہے اور مشاہدہ میں بھی آتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ غصہ امیروں کی دولت ہے، اور
فقیر ومسکین کو کبھی غصہ نہیں آتا۔ یہ ہرانسان کی صفت ہے، بچپن سے لیکر بڑھاپے تک
اس کا ظہور ہوتا ہے جو اس بات کی ناقابل۔ تردید علامت ہے کہ غصہ انسانی فطرت وطبیعت
کا جزء۔ لاینفک ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے کلام سے بھی واضح۔ طورپر معلوم ہے۔ آئیے
غصے کی مذمت پر چند احادیث آپ کو پیش کرتا ہوں
غصہ نہ کیا کر:
حدیث مبارکہ میں ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: أَنَّ رَجُلًا قَالَ
لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوْصِنِي ، قَالَ : لَا
تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ۔)ترجمہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض
کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ (صحیح البخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب،
حديث:6116.)
غصہ
میں کمی کا نسخہ: حضرت معاذ بن جبل
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ کے سامنے ایک دوسرے کو گالی دی، پس ایک شخص کو
شدید غصہ آیا حتی کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ شدید غصہ کی وجہ سے اس کی ناک پھٹ جائے
گی، پس نبی نے فرمایا مجھے ایک کلمہ معلوم
ہے اگر وہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا تمام غصہ ختم ہوجائے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ
عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول وہ کون سا کلمہ ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم
(اے اللہ! میں شیطان مردو سے تیری
پناہ چاہتا ہوں) راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اسے (جسے غصہ آیا
تھا) کہنے لگے یہ کلمات کہو تو اس نے انکار کردیا اور لڑائی میں مزید تیز ہوگیا
اور اس کے غصہ میں اضافہ ہونے لگا۔ (سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب :4780)
طاقتور
کون: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا
طاقتور وہ نہیں ہے جو (اپنے مقابل کو) پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کی حالت
میں اپنے آپ پر قابو پالے۔ (سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب :4779)
غصہ
شیطان سے ہے: حضرت عطیہ رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد
فرمایا: غصہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی
سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرلے۔ (ابوداوُ
د) (سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب الادب :4784
جنتی
حوریں: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا
جو شخص غصہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصہ کے تقاضا کو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو (لیکن
اس کے باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہ دے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو
ساری مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اس کو اختیار دیں گے کہ جنت کی حوروں میں سے جس
حور کو چاہے اپنے لئے پسند کرلے۔(جامع ترمذی ،جلد اول باب البر والصلۃ :2021 )
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو!غصے کا عملی علاج اس طرح ہوسکتا ہے کہ غُصّہ پی جانے اور درگزر سے
کام لینے کے فضائل سے آ گاہی حاصل کرے ، جب کبھی غُصّہ آئے ان فضائل پر غور وفکر
کرکے غُصّے کو پینے کی کوشش کریں۔
محمد فہیم
ندیم ( درجہ اولیٰ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیوں فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غور وفکر
کرنے اور اس کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے
اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں جب کام کاج سے تھک
گئے تو سو کر آرام کرلیا جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے
تابی کو دور کرلیا اور جب کسی پر غصّہ آیا تو اس سے جھگڑا کرکے غصے کو ٹھنڈا کر لیا
الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے ۔
غصے پر قابو
پانے کے لیے پنجتن پاک کی نسبت سے پانچ احادیث درج ذیل ہیں:
حدیث نمبر 1: غصہ
کی حالت جاتی رہے گی... حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی دی
ان میں سے ایک چہرہ غصّہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس آدمی کی طرف دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر وہ اسے کہ لے تو
اس سے (غصّہ کی حالت) جاتی رہے گی (وہ کلمہ یہ ہے)۔ (اعوذباللہ من الشیطن الرجیم) (صحيح
مسلم شریف كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، باب فَضْلِ مَنْ يَمْلِكُ نَفْسَهُ
عِنْدَ الْغَضَبِ وَبِأَيِّ شيء يَذْهَبُ الْغَضَبُ، حدیث نمبر6647)
حدیث نمبر 2: غصہ
نہ کیا کر... حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا غصّہ نہ کیا کرو اس شخص نے اپنی (وہی) درخواست کئی بار دہرائی
۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی ارشاد فرمایا (غصّہ نہ کیا کرو) (جامع ترمذی
جلد اول باب البر و الصلہ:2020)
حدیث نمبر 3: طاقتور
کون؟؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا طاقتور وہ نہیں ہے جو (اپنے مقابل کو) پچھاڑ دے بلکہ طاقتور
وہ ہے جو غصّہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے۔ حوالہ:(سنن ابی داؤد ، جلد سوئم
کتاب الآداب:4779)
حدیث نمبر 4 :غصہ
کم کرنے کا نسخہ۔: حضرت عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصّہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا ہے ، شیطان کی پیدائش
آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے
تو اس کو چاہیے کہ وضو کرلے۔ حوالہ:(سنن ابی داؤد ، جلد سوئم کتاب الآداب: 4784)
حدیث نمبر 5: جنتی
حوریں۔۔۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غصّہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصّہ کے تقاضا کو پورا
کرنے کی طاقت بھی ہو(لیکن اس کے باوجود جس پر غصّہ ہے اس کو سزا نہ دے) اللہ تعالیٰ
قیامت کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائیں گا اور اس کو اختیار دیں گا کہ جنت
کی حوروں میں سے جس حور کو چاہیے اپنے لیے پسند کرلے۔ حوالہ: (جامع ترمذی: جلد اول
باب البر و الصلہ:2021)
(غصّہ روکنے کی
فضیلت) حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنے غصے کو روکے گا اللہ عزوجل قیامت کے روز اس
سے اپنا عذاب روک دے گا ۔ (شعب الایمان جءص315, حدیث 8311)
محمد احمد رضا عطاری (درجۂ ثالثہ
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو غصہ نفس کی طرف سے ہوتا ہے اور نفس ہمارا بدترین دشمن ہے،اس کا مقابلہ
کرنا،اسے پچھاڑ دینا بڑی بہادری کا کام ہے،نیز نفس قوت روحانی سے مغلوب ہوتا ہے
اور آدمی قوت جسمانی سے پچھاڑا جاتا ہے، قوت روحانی قوت جسمانی سے اعلیٰ و افضل ہے
لہذا اپنے نفس پر قابو پانے والا بڑا بہادر پہلوان ہے۔ غصہ اکثر کمال ایمان کو
بگاڑ دیتا ہے مگرکبھی اصل ایمان کا ہی خاتمہ کردیتا ہے . آئیے پہلے غصہ کی تعریف
پڑھتے ہیں کہ غصہ کہتے کسے ہیں۔
غصہ کی تعریف : مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں غصہ
نفس کے اس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دور کرنے پر ابھارے (مراۃ
المناجیح ، جلد 6 صفحہ655 ضیاء القران پبلیکیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
پیارے اسلامی
بھائیو غصہ نفس کی طرف سے ہوتا ہے اور نفس ہمارا بدترین دشمن ہے ۔اس کا مقابلہ
کرنا،اسے پچھاڑ دینا بڑی بہادری کا کام ہے۔نیز نفس قوت روحانی سے مغلوب ہوتا ہے
اور آدمی قوت جسمانی سے پچھاڑا جاتا ہے، قوت روحانی قوت جسمانی سے اعلیٰ و افضل ہے
لہذا اپنے نفس پر قابو پانے والا بڑا بہادر پہلوان ہے۔ غصہ اکثر کمال ایمان کو
بگاڑ دیتا ہے مگرکبھی اصل ایمان کا ہی خاتمہ کردیتا ہے۔ نبی کریم نے غصہ نہ کرنے پر احادیث کریمہ میں مزمت ارشاد
فرمائی ہے چنانچہ
(1) اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی نے ارشاد فرمایا«إِنَّ الْغَضَبَ لَيُفْسِدُ
الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسَلَ »
کہ غصہ ایمان
کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا(تمہ)شہد کو غصہ اکثر کمال ایمان کو بگاڑ دیتا ہے
مگرکبھی اصل ایمان کا ہی خاتمہ کردیتا ہے لہذا یہ فرمان عالی نہایت درست ہے اس میں
دونوں احتمال ہیں۔
ایلوا ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس ہے،سخت کڑوا
ہوتا ہے،اگر شہد میں مل جاوے تو تیز مٹھاس اور تیز کڑواہٹ مل کر ایسا بدترین مزہ پیدا
ہوتا ہے کہ اس کا چکھنا مشکل ہوجاتا ہے،نیز یہ دونوں مل کر سخت نقصان دہ ہوجاتے ہیں،اکیلا
شہد بھی مفید ہے اور اکیلا ایلوا بھی فائدہ مند مگر مل کر کچھ مفید نہیں بلکہ مضر
ہے جیسے شہد و گھی ملاکر کھانے سے برص کا مرض پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے،یوں ہی
مچھلی اور دودھ،یعنی مؤمن کو ناجائز غصہ بڑھ جائے تو اس کا ایمان برباد ہوجانے کا
اندیشہ ہے یا کمال ایمان جاتا رہتا ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6
, حدیث نمبر:5118)
(2) ایک شخص نے حضور سے عرض کی، مجھے وصیت کیجیے۔ فرمایا: ’’غصہ نہ
کرو۔‘‘ اس نے بار بار وہی سوال کیا، جواب یہی ملا کہ غصہ نہ کرو (صحیح البخاري
،کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب،الحدیث: 6116 ،ج 4،ص 131)
(3) بعض لوگوں
کوغصہ جلد آجاتا ہے اور جلد جاتا رہتا ہے، ایک کے بدلے میں دوسرا ہے اور بعض کو دیر
میں آتا ہے اور دیر میں جاتا ہے یہاں بھی ایک کے بدلے میں دوسرا ہے یعنی ایک بات
اچھی ہے اور ایک بری ادلا بدلا ہوگیا اور تم میں بہتر وہ ہیں کہ دیر میں انھیں غصہ
آئے اورجلد چلا جائے اور بدتر وہ ہیں جنھیں جلد آئے اور دیر میں جائے۔ غصہ سے بچو
کہ وہ آدمی کے دل پر ایک انگارا ہے، دیکھتے نہیں ہو کہ گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں اور
آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں جو شخص غصہ محسوس کرے لیٹ جائے اور زمین سے چپٹ جائے (مشکاۃ
المصابیح ‘‘ ،کتاب الآداب، بالأمربالمعروف،الحدیث5145 ،ج3 ،ص 100)
پیارے اسلامی
بھائیو غصہ کرنے سے دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
1..حسد2..غیبت 3..چغلی 4..کینہ 5..قطع تعلقی 6.. تکبر 7..گالی گلوچ وغیرہ وغیرہ ۔
(العیاذ باللہ تعالیٰ)
اللہ پاک کی
بلند بارگاہ میں دعا ہمیں کرنے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم
النبین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد بلال منظور
(درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو!جان لو! آدی کی تخلیق اس انداز میں کی گئ کہ اس کی فنا اور با مقصود
تھی لہذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا۔ یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے
پھوٹتی ہے، اللہ عزوجل نے غصہ کو آگ سے پیدا فرمایا اور اسے انسان کے باطن میں رکھ
دیا پس جب وہ ارادہ کرتا ہے تو غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور جب جوش پیدا ہوتا ہے
تو دل کا خون کھول کر رگوں میں پھیل جاتا ہے پھر وہ آگ کی طرح بدن کے بالائی حصے کی
طرف اٹھتا ہے یا اس پانی کی طرح جو (برتن کے اندر) کھولتا ہے اور اس طرح وہ چہرے کی
طرف اٹھتا ہے پس چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔غصے کی تعریف: غصہ
ایک چھپی ہوئی آگ ہے جو دل میں ہوتی ہے جس طرح راکھ کے نیچے چھپی ہوئی چنگاری ہوتی
ہے-اور یہ چھپے ہوئےتکبر کو باہر نکالتی ہے-شاید غصہ اسی آگ سے ہو جس سے شیطان کو
پیدا کیا گیا ہے لباب الاحیاء-ص248 باب 25
(1)
جہنمی دروازہ- جدار رسالت، محبوب
رب العزت صلی اللہ علیہ واله عالم نے فرمایا : بیشک جہنم میں ایک ایسا دروازہ ہے
جس سے وہی داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ عزوجل کی نافرمانی پر ہی ٹھنڈا ہوتا ہے کنز
العمال ، کتاب الاخلاق قسم الاقوال . 208/2 - حدیث 7696 الجزء الثالث
(2)
غصہ ایما کو خراب کر دیتا ہے ۔ سید
المبلغين رحمة العلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے معاویہ بن حیدہ رضی
اللہ عنہ غصہ نہ کیا کرو کیونکہ غصہ ایمان کو اسی طرح خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا
(ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔۔ کنز العمال، کتاب الاخلاق
قسم الاقوال. 2/ 209 حديث 7709 الجزء الثالث
(3)
غصہ کب نقصان دہ ہے ۔ سرکار دو
عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میں تمہیں لوگوں کے معاملات
اور ان کی عادتوں کے بارے میں بتاوں گا۔ ایک شخص کو خصہ جلدی آتا ہےاور جلدی ہی
ختم ہو جاتا ہے ، یہ نہ تو کسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ نہ کسی سے نقصان اٹھاتا ہے،
اور ایک شخص کو دیر سے غصہ آتا ہے مگر جلد دفع ہو جاتا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر
ہے۔ نقصان دہ نہیں ۔ ایک شخص اپنے حق کا تقاضہ کرتا ہے اور غیر کا حق بھی ادا کر دیتا
ہے اس کا یہ عمل نہ تو اسے نقصان دیتا ہے نہ کسی دوسرے کو اور ایک شخصی اپنا حق تو
طلب کرتا ہے لیکن دوسرے کا حق ادا نہیں نہیں کرتا تو یہ اس کے لیے مضر (نقصان دہ)
ہے مفید نہیں- کنز العمال٫ كتاب الاخلاق قسم الأقوال، 2/ 208 حديث 7699 الجزالثالث
(4)
غصہ کی کثرت راہ حق سے ہٹا دیتی ہے ۔ حضرت
سیدنا سلیمان بن داؤد علیھما السلام نے فرمایا ۔ زیادہ غصہ کرنے سے بچو کیونکہ غصے
کی کثرت بردبار آدمی کے دل کو راہ حق سے ہٹا دیتی ہے ۔ احیاء العلوم. 204/3
(5)
سب سے زیادہ سخت چیز = ایک شخص نے
بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ کونسی چیز سب سے زیادہ سخت ہے؟ فرمایا : الله عز وجل
کا غضب - عرض کی مجھے غضب الٰہی سے کیا چیز بچا سکتی ہے؟ فرمایا : غصہ نہ کیا کرو۔احیاء
العلوم. 3/ 2005
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی دنیوی غرض کے لیے غصہ کرنا شیطان
کے مکروں (فریبوں) میں سے ایک بڑا مکر ہے، تو لہذا جب غصہ آئے تو اس حالت میں ہمیں
صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور اپنے آپ کو غصےپر قابو رکھنا چاہیے کیونکہ غصہ
ایمان کو خراب کر دیتا ہے
الله عز و جل ہمیں بے جا غصے سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم
مسعود احمد
(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو فی زمانہ مسلمان اللہ تعالی کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غور و فکر
کرنے اور اس کے ذریعے اپنے رب تعالی کے کمال و جمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے
اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں جب کام کاج سے تھک
گئے تو سو کر آرام کر لیا جب شہوت نے اسے تاب کیا تو حلال یا حرام کے ذریعے سے اس
کیاے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ ایا تو اس سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا
کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے ۔ غصے پر قابو پانے کے
لیے پنجتن پاک کی نسبت سے پانچ احادیث شریف درج ذیل ہیں
حدیث نمبر. (1)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دوعالم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہادر وہ نہیں جو
پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں
رکھے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، 4 / 130، الحدیث: 6114)
حدیث نمبر.(2)
…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان
کو محفوظ رکھے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے
کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا اور جو اللہ
عَزَّوَجَلَّ سے عذر کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذر کو قبول فرمائے گا۔(شعب
الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، 6 / 315، الحدیث:
8311
حدیث نمبر.(3)…
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ
میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں
کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔(فردوس الاخبار، باب القاف، 2 / 137، الحدیث: 4476
حدیث نمبر 4 بڑی
شان والے مولا سبز سبز گنبد والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنم کا ایک
دروازہ ہے جس سے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ٹھنڈا
ہوتا ہے شعب الایمان جلد 6 صفحہ نمبر320حدیث نمبر 8331
حدیث نمبر 5: حضرت
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں کہ جو مجھے جنت میں داخل کر دےتو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: لا تغضب ولک الجنت، یعنی
غصہ نہ کیا کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔ معجم اوسط جلد نمبر 2صفحہ نمبر 2حدیث نمبر
2353
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں غصہ کرنے سے
محفوظ فرمائے اور غصہ آئے تو اس پراپنے آپ کو قابو رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
ثم امین جزاک اللہ خیرا
سلمان عطّاری
(درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
غصہ ایک چھپی
ہوئی آگ ہے جو دل میں ہوتی ہے۔ جس طرح راکھ کے نیچے چھپی ہوئی چنگاری ہوتی ہے ۔ اللہ
تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں غصّہ کی مذمت بیان فرمائی ہے اور احادیث میں بھی اس کی
مذمت بیان فرمائی گئی ہے اور غصّہ پر قابو پانے والے کی فضیلت اور غصّہ کرنے والے
کی سزا بھی بیان فرمائی ہے اُنہی احادیث میں سے کچھ احادیث ملاحظہ کیجیے :-
(1)
غصّہ روکنے کی فضیلت :- وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ خَزَنَ لِسَانَهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ كَفَّ
غَضَبَهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ عَذَابَةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنِ اعْتَذَرَ
إِلَى اللَّهِ قَبِلَ اللَّهُ عُذْرَة
:- (مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح )جلد(6) حدیث نمبر ( 5121):- حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنی زبان
کی حفاظت کرے اللہ تعالٰی اس کے عیب چھپالے گا، اور جو اپنا غصہ روکے اللہ تعالی
اس سے قیامت کے دن اپنا عذاب روک لے گا اور جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں معذرت کرے
اللہ تعالٰی اس کے عذر قبول کرلے گا۔
(2)
پہلوان کون ہے :- قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَيْسَ الشَّدِيدُ
بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ :- (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد(6)
حدیث نمبر( 5105):- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کُشتی سے پہلوان نہیں ہوتا! پہلوان وہ ہے جو غصہ کے
وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے :-
(3)
مختصر سا عمل کیا ہے :- حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی مختصر سا عمل بتائیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ آلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا تغضب" غصہ نہ کرو۔ اس نے دوبارہ یہی سوال کیا
تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: "لا تغضب" غصہ نہ کروں۔ (صحیح
البخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، الحديث (6116) ص (516) :-
(4)
غصّہ کرنے والا جہنّم کے کنارے پر پہنچتا ہے :- حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
نبی مکرم نور مجسم شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ آلہ سلم کا فرمان ذیشان ہے:مَا غَضِبَ أَحَدٌ إِلَّا
أَشْفَى عَلَى جَهَنَّمَ .جو شخص
غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب في حسن
اخلاق، فصل فی ترک الغضب، حدیث (8331) جلد (6) ص (320) :-
(5)
غصّہ پی جانے والے کا اجر :-عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ
النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ كَظَمَ غَيْظًا،
وَهُوَ قَادِرُ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
عَلَى رُيُّ وُسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيْرَهُ مِنَ
الْحُوْرِ الْعِيْنِ مَا شَاءَ :-
(ابو داؤد ، کتاب الادب، باب من كظم غيظاً،جلد (2) ص (325) الحديث (4777) :-
حضرت سیدنا
معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ شفیع المذنبین صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے فرمایا جو شخص غصہ نافذ کرنے پر قادر ہونے
کے باوجود اسے پی جائے ، قیامت کے دن اللہ عزو جل تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اسے
اختیار دے گا کہ بڑی آنکھوں والی جس حور کو چاہے پسند کرے ۔
تنویر احمد
عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
1)حضرت
سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیِّ
اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی:”اَوْصِنِىْ“ یعنی مجھے نصیحت فرمائیں، حضورِاکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: ”لَا تَغْضَبْ“یعنی
غصہ نہ کرو، اس نے بار بار یہی سوال کیایعنی مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہی اِرشاد فرمایا: ”لَا تَغْضَبْ“یعنی غصہ نہ کرو۔ (بخاری،4131/،حدیث: 6116)
مذکورہ حدیث سے
معلوم ہؤا کہ نبیِّ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
”جَوَامِعُ الْکَلِم“ میں سے ہے ، ایک ہی جملے میں دنیا وآخرت کی بھلائیاں حاصل
کرنے کا طریقہ ارشاد فرمادیا ۔
2)حافظ عمر بن
علی المعروف ابنِ مُلَقِّن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : حدیث کا
معنی یہ ہے کہ غصہ کے اسباب سے بچو اور وہ کام جو غصہ دلائیں اُن کے دَرْپے نہ ہو
، جہاں تک خود غصہ کی بات ہے تو یہ طبعی فِطری چیز ہے،اور فِطرت وطبیعت سے اس
کا(مکمل طور پر) زائل ہوجانا ممکن نہیں۔
مزید ارشاد
فرماتے ہیں: شارع عَلَیْہِ السَّلَام نے اس ایک کلمہ میں دنیا و آخرت کی خیر کو
جمع فرمادیا کیونکہ غصہ بندے کو قطعِ رحمی کرنے، دوسروں سے منہ موڑنے اور شفقت
ومہربانی نہ کرنے کی طرف لے جاتا اور بعض اوقات تکلیف دینے پر بھی اُبھارتا ہے۔ (المعين
علی تفھم الاربعین، ص282)
3)حافظ، فَقِیہ
عبد الرحمن بن شہاب المعروف اِبنِ رَجب حَنبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
فرماتے ہیں : حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِس
فرمان کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ”غُصّہ نہ کرو“ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کام اختیار
کرو جو حُسنِ اَخلاق جیسے بخشش وسخاوت ، بُردْباری وحیا ، عاجزی ، غصہ برداشت کرنا
وغیرہ پیدا کریں، اور یہ کام اس کی ایسی عادت بن جائیں کہ جب غصے کے اسباب پائے
جائیں تو وہ غصے کو اپنے سے دور کرنے پر قادر ہوجائے ۔
دوسرا اِس کا
معنی یہ ہوسکتا ہے کہ جب غصہ آجائے تو غصے کے مُقْتَضٰی یعنی جس غلط بات کا غصہ
تقاضا کررہا ہے اس پر عمل نہ کرو۔(ملخص ازجامع العلوم والحكم ص: 182)
4)امام، فقیہ
ابنِ حجر ہیتمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: غصہ وہ نا پسندیدہ ہے
جو اللہ تعَالٰی کے لئے نہ ہو ، ہاں!اگر غصہ اللہ تعَالٰی کے لئے ہو مثلاً: اللہ
تعَالٰی کی نا فرمانی ہوتا دیکھ کر کسی کو غصہ آیا تو یہ پسندیدہ بات ہے ، اسی وجہ
سے مخلوق میں سب سے زیادہ شفقت ومہربانی فرمانے والے، صبر و دَرْگُزر کے پیکر یعنی
نبیِّ اَنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُس وقت سخت جَلال
میں تشریف لاتے جب اللہ تعَالٰی کی حُدود کو، محرمات کو پامال کیا جاتا حالانکہ آپ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبھی اپنی ذات کے لئے غصہ نہیں
کرتے تھے۔ (الفتح المبين،338 مع الزیادۃ والتفصيل)
5)مزید آپ
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب کوئی شخص غصہ میں ہو تو اُس وقت اپنی
جان ، اپنے گھر والوں اور اپنے مال کے بارے میں بددُعا نہ کرے کیونکہ بعض اَوقات
وہ گھڑی قَبولیَّت کی ہوتی ہے اور اِس کی وہ بات قبول کرلی جاتی ہے۔
( 6) ایک شخص
نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے عرض کی، مجھے وصیت کیجیے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ اس
نے بار بار وہی سوال کیا، جواب یہی ملا کہ غصہ نہ کرو۔
( صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب الأدب، باب الحذر من
الغضب،الحدیث: ۶۱۱۶ ،ج ۴ ،ص ۱۳۱۔ )
(7)علامہ ابنِ
رجب حنبلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یہ غصے کا بہت بڑا علاج ہے
کیونکہ غصہ کرنے والے سے غصے کی حالت میں ایسی بات صادر ہو جاتی ہے جس پر اسے غصہ
ختم ہونے کے بعد بہت زیادہ ندامت اٹھانی پڑتی ہے، جیسے غصے کی حالت میں گالی وغیرہ
دے دینا جس کا نقصان بہت زیادہ ہے ،تو جب وہ خاموش ہو جائے گا تو اسے اس کے کسی شر
کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔( جامع العلوم و الحکم، الحدیث السادس عشر، ص۱۸۴)
(8)حضرت عطِیَّہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان
آگ سے پیدا کیاگیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے ہی بجھایا جا سکتا ہے ، لہٰذاجب
تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب
ما یقال عند الغضب، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۴۷۸۴)
(غصہ پینے کے
بارے میں ترغیب)
غصہ پی جانے
کے فضائل، غصہ دور کرنے کے بہت سے علاج علمائے کرام نے اپنی کُتب میں تحریرکئے ہیں۔
اِس حوالے سے امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ”غصّے کا
علاج “(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالَعہ بھی نہایت مفید رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں غصہ کرنے سے بچنے اور غصہ آجانے کی صورت میں معاف کردینے کی توفیق عطا
فرمائے، امین
محمد احمد رضا عطّاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ قادرپور راں ملتان ، پاکستان)
غصہ کو عربی میں
"غضب" کہتے ہیں ۔ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ غصے کی تعریف بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
غَضَب یعنی غُصّہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو
دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر اُبھارے۔(مرأۃ المناجیح جلد 6ص655 ضیاء
القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
پیارے اسلامی
بھائیو!بعض لوگ اس طرح کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ "غصہ حرام ہے" یا
پھر "غصہ جہنم میں لے جاتا ہے" واضح رہے مطلقاً غصے کو حرام بتانا درست
نہیں واضح رہے کہ غصہ ناجائز مذموم اسی وقت ہے جب کہ وہ ناحق ہو یا اپنی برتری
ظاہر کرنے کے لیے ہو وغیرہ، شرعی معاملہ میں غصہ مذموم نہیں بلکہ احکاماتِ شرعیہ
کے نفاذ کے لئے غصہ آنا تو عین عبادت ہے۔ ہاں اپنی ذات کے لئے جو غصہ آیا، اسے
خلافِ شرع نافذ کرنا یہ ناجائز و حرام ہے ۔ اسی غصے پر قابو رکھنے کی قرآن مجید میں
فضیلت ارشاد فرمائی گئی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ (36)وَ الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ
الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَ(37) ترجمہ کنز العرفان:تو(اے لوگو!)تمہیں جو کچھ دیا
گیاہے وہ دنیوی زندگی کا سازو سامان ہے اور وہ جو اللہ کے پاس ہے وہ ایمان والوں
اور اپنے رب پر بھروسہ کرنے والوں کیلئے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والاہے۔ اور(ان
کیلئے) جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں
غصہ آئے تومعاف کردیتے ہیں۔ (سورۃ الشوری،آیت نمبر 36٫37)
آئیے اسی غصے
کی مذمت کے بارے میں ہم احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرماتے ہیں:
1):، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ:" لَا تَغْضَبْ" فَرَدَّدَ مِرَارًا،
قَالَ:" لَا تَغْضَبْ". ترجمہ:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6116]
2):عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ
نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ" ترجمہ:ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلوان وہ نہیں
ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں
اپنے آپ پر قابو پائے ۔ {صحیح البخاری/کتاب الاخلاق/6114}
3):عَنُ ابی الدَرداء رضی
اللہ تعالیٰ عنہ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ دُلَّنِی عَلٰی عَمَلٍ یُدخِلُنِی
الْجَنَّۃَ، قَالَ: لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّۃُ ترجمہ: سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے فرماتے ہیں: میں نے عرض کی یارسول اللہ! عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنَّت میں
داخِل کر دے فرمایا:غُصّہ نہ کرو، تو تمہارے لئے جنَّت ہے۔ {مجمع الزوائد/جلد8/حدیث،12990
،دارالفکر بیروت}
اللہ عزوجل سے
دعا ہے کہ مالک لم یزل ہمیں احکاماتِ شرعیہ پر عمل کرنے اور غضب للنفس سے بچنے کی
توفیقِ سعید عطا فرمائے۔امین
محمد اویس (درجۂ
رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
قران پاک میں
اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے : الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ
كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَ(37)
ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو بڑے
بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب غصہ آئے معاف کردیتے ہیں ۔
تفسیر صراط الجنان:(1)حضرت سیدنا ابو دردہ رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔(المعجم الاوسط جلد 2ص 20 الحدیث 2353)
(2)حضرت سیدنا
ابن عمرو رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی اللہ کے
غضب سے مجھے کیا چیز بچا سکتی ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کیا
کرو(المسندللامام احمد بن حنبل مسند عبداللہ بن عمرو جلد2 ص587 الحدیث 6646)
(غصہ ایمان و
عزت کو خراب کر دیتا ہے) (3)ایک بزرگ رحمت اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں غصے سے بچو
کیونکہ وہ تمہیں معذرت کی ذلت تک لے جاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ غصے سے بچو کیونکہ
یہ ایمان کو یوں خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے (احیاء العلوم
جلد3 ص،507)
(4)ایک شخص نے
بارگاہ رسالت میں عرض کی کون سی چیز اللہ کون سی چیز زیادہ سخت ہے؟ آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالی کا غضب ہے عرض کی مجھے اللہ کے غضب
سے کیا چیز بچا سکتی ہے فرمایا غصہ نہ کیا کرو
(احیاء العلوم
جلد 3 ص505)
…(5) حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہادر وہ نہیں جو پہلوان
ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں
رکھے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، 4 / 130، الحدیث:6114 )
محمد زین ذوالفقار
(درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
غصے
کی تعریف: کسی خلافِ طبیعت چیز یا
بات پر نفس کے جوش مارنے کی کیفیت کا نام غصہ ہے مفسیرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی
احمد یار خان فرماتے ہیں: غضب یعنی غُصہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے
بدلہ یا اسے دفع دور کرنے پر اُبھارے۔(مراۃ المناجیح)
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اے ابن
آدم! تو غصے میں اتنا اچھلتا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ شاید اب کی اچھل میں دوزخ میں جا
پڑے۔ غصہ انسان کے ہوش و حواس ختم کر دیتا ہے اور اس کے ٹھنڈا ہونے پر ہمیں اپنے
نقصان کا اندازہ ہوتا ہے جو کہ لوٹایا نہیں جا سکتا۔
آئیے غصے کے
مذمت پر چند احادیث مبارکہ سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں
حدیث نمبر 1:-
طاقتور کون ہے:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا طاقتور وہ نہیں ہے جو (اپنے
مقابل کو) پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے۔ (سنن
ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب :4779) (بخاری)
حدیث نمبر 2:-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمادیجئے؟
آپ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ اس
شخص نے اپنی (وہی) درخواست کئی بار دہرائی۔آپ نے ہر مرتبہ یہی ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ (جامع ترمذی، جلد اول باب
البر والصلۃ :2020)
حدیث نمبر 3:-
غصہ ائے تو کیا کریں:- حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا
ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں
سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرلے۔(سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب
الادب :4784)
حدیث نمبر 4:-
امن اور ایمان سے برھ گیا:- حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی
اکرم ()نے فرمایا جس شخص نےغصہ ضبط کر لیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا
،اللہ تعالیٰ اس کو امن اور ایمان سے بھر دے گا‘‘- (جامع البیان، ج: 4، ص:61)
حدیث نمبر 5:- ایمان خراب:- رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصہ ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو
خراب کر دیتا ہے ۔ مشکاۃ المصابیح حدیث (5118)
اللہ تبارک و
تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں غصے جیسی گناہوں بری بیماریوں سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم